عوامی راج کی آس !…..ناصف اعوان
لگ رہا ہے مگر کہ سیاسی منظر نامہ تبدیل ہونے جا رہا ہے کوئی نیا منتظم آنے والا ہے اور وہ ہاتھ لہرا لہرا کر کہے گا کہ وہ تو پوتر ہے نردوش ہے
حکومت میں شہہ دماغوں کی کمی نہیں مگر حیرت ہے کہ نہ مہنگائی ان سے قابو میں آرہی ہے نہ ہی بڑھتی ہوئی بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتیں ‘ تو پھر یہ کیوں اقتدار میں بیٹھے ہوئے ہیں کسی اور کو آگے آنے کا موقع دیں مگر انہیں تو حکمرانی کا مزہ لینا ہے لہذا وہ اپنی جگہ کیسے چھوڑیں ؟
لگ رہا ہے مگر کہ سیاسی منظر نامہ تبدیل ہونے جا رہا ہے کوئی نیا منتظم آنے والا ہے اور وہ ہاتھ لہرا لہرا کر کہے گا کہ وہ تو پوتر ہے نردوش ہے اس نے یہ مہنگائی کی نہ ہی کوئی ٹیکس لگایا عوام کے دامن میں انگارے اس سے پہلے والے نے بھرے ۔عوام بیوقوف نہیں وہ کہیں گے کہ تم سب ایک ہو ایک جیسے ہو باری باری آتے ہو جاتے ہو اور ستم ڈھا کر چلے جاتے ہو ۔
یہ کیسا سیاسی چکر ہے جو سستر برس سے اسی طرح چلے جا رہا ہے ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا اگر اس چکر کو کوئی ”چکرانا“ چاہتا ہے تو اس کی وہ دُرگت بنتی ہے کہ کچھ نہ پوچھو ؟ سوچنے والی بات یہ ہے کہ اقتدار والوں کو ذرا سا بھی بلکتے تڑپتے اپنے ہم وطنوں پر رحم نہیں آتا ؟
ان دنوں دیکھا جا سکتا ہے کہ جو غریب لوگ بجلی کے بل ادا نہیں کر سکتے کس طرح تڑپ رہے ہیں ان کے پاس اتنے پاس نہیں کہ وہ قومی خزانے کا پیٹ بھر سکیں ویسے بھی وہ بھرا نہیں جا سکتا کیونکہ وہ آہستہ آہستہ حکمرانوں کے پیٹوں میں منتقل ہوتا رہتا ہے لہذا اپنے وطن کے معاشی حالات بد تر ہو چکے ہیں مگر مجال ہے حکمرانوں کی بند آنکھ کھلے وہ مسلسل سب اچھا کی گردان الاپے جا رہے ہیں جبکہ چمن کی فاختائیں سہمی ہوئی ہیں وہ نغمہ سرا نہیں ہو رہیں کیونکہ خوشی ان سے کوسوں دور ہے ہر لمحہ مغموم ہر آہٹ خوف میں لپٹی ہوئی ۔نجانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں کبھی سوچا تھا ایسا کبھی چاہا تھا ایسا ‘ تو پھر بیتے دنوں کی یادوں کو کیسے کوئی بھلا سکتا ہے اس قدر سختی اس قدر پابندیاں اس قدر بے بسی ہمیں یہ توقع ہر گز نہ تھی ؟
اب لوگ شور مچا رہے ہیں احتجاج کر رہے ہیں تو
اس میں کچھ غلط نہیں جو تکلیف میں ہوتا ہے وہ اس کا اظہار بھی کرتا ہے اس اظہار کا ہمارا آئین بھی اجازت دیتا ہے مگر اب وہ بھی سہم سا گیا ہے وہ کبھی خود کو دیکھتا ہے اور کبھی ان کو ‘ کوئی کیا کرے کدھر جائے کروڑوں کی ہجرت بھی تو ممکن نہیں لہذا کہیں کا رخ کرنے کے بجائے اہل اختیار سے بات کی جائے گفتگو کی جائے کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا مصیبت یہ بھی ہے کہ حکمرانوں کو دولت کی ہوس نے فکرِ عوام سے آزاد کر دیا ہے وہ صرف اپنے اثاثوں کو دیکھتے ہیں جو یہاں وہاں بکھرے پڑے ہیں ۔کاش ان کا دل اس بات پر بھی دھڑک اٹھے کہ کیا کرنا ہے اتنی دولت کو کیوں نہ اسے دھرتی کے باسیوں میں تقسیم کر دیا جائے مگر جنہیں کھربوں میں سانس لینا ہو وہ بھلا کب کروڑوں پر اکتفا کرتے ہیں وہ بہت دور جا چکے ہیں جنہیں عوام کی طاقت ہی واپس لا سکتی ہے اور وہ ضرور ایسا کرے گی کیونکہ اب لوگوں کا جینا دوبھر ہو چکا ہے کوئی اپنا گھر بیچ رہا ہے تو کوئی اس میں موجود سامان‘ کوئی اپنے اعضا فروخت کر رہا ہے تو کوئی اپنے جسموں کو نیلام کر رہا ہے ۔
یہ دن بھی دیکھنا تھے کیا ہو گیا ہمارے کرتاؤں دھرتاؤں کو ‘ ان کے دل پسیجتے ہی نہیں ان میں ترس کی لہر دوڑتی ہی نہیں تو پھر یہ چھوٹے چھوٹے احتجاج کسی بڑے احتجاج میں تبدیل ہو سکتے ہیں پھر ان احتجاجیوں کے قدم ان کے محلوں اور ایوانوں کی طرف بھی بڑھ سکتے ہیں یعنی وہ نعرہ مستانہ بلند کر سکتے ہیں پھر راج کرے گی خلق خدا جو تم بھی ہو اور میں بھی ہوں اس پر شاید انہیں پچھتانا پڑے مگر جب پانی پلوں کے نیچے سے گزر جائے تو واپس نہیں آتا ! لہذا اتنا منہ نہ پھیرو اتنا نہ نظروں سے گراؤ زندگی کے رنگ بدلتے رہتے ہیں اس میں آج سسکیاں ہیں تو کل ہاسے بھی ہو سکتے ہیں۔
کب تک طلوع صبح کو روکا جا سکتا ہے اندھیری رات کو بالآخر اجالے میں ڈھلنا ہے یہ فطرت کا قانون ہے کوئی گھڑی کب ٹھہرتی ہے اس کی جگہ کوئی دوسری لے لیتی ہے جنہیں یہ لگتا ہے کہ وہ بڑے قوی ہیں اور حالت موجود کو یہیں پر رکنے پر مجبور کر سکتے ہیں
وہ بڑے بھولے ہیں ان کی یہ خوش فہمی ہے وہ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں انہیں کہیں یہ دکھائی نہیں دے گا کہ وقت تھم گیا تھا جاہ وجلال والے بادشاہ آئے اور چلے گئے جو عاجز تھے کوئی تھوڑا سا بھی لوگوں کے دکھوں کو محسوس کرتے تھے انہیں یاد کیا جاتا ہے ان کے قصے کہانیاں اب بھی سنی سنائی جاتی ہیں لہذا عرض ہےکہ راستوں میں کھڑی رکاوٹیں دور ہونی چاہیں سب کے ساتھ چلا جائے اس میں جو اطمینان ہے وہ کسی اور انداز فکر میں نہیں ؟
جتنی توانائیاں ایک دوسرے کو گرانے جھکانے پر صرف ہورہی ہیں وہ مل کر دہکتے مسائل کو ختم کرنے پر ہونی چاہیں ۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ روز بروز معیشت کی حالت بگڑتی جا رہی ہے اس کو ٹھیک کرنے کے لئے عوام کی جمع پونجیاں ہتھیائی جا رہی ہیں ۔ جناب عالی ! کوئی منصوبہ بندی کیجئیے اپنے وسائل کو بروئے کار لائیے ہمارے ماہرین اور ہمارے دانشور اس قابل ہیں اس اہل ہیں کہ ملک کو درپیش بحرانوں سے نجات دلا سکیں انہیں زحمت دیجئیے ان کی خدمات حاصل کیجئیے وہ بے چین ہیں اپنی دھرتی کو چار چاند لگانے کے لئے ۔چھوڑئیے دولت کے انباروں کو اور دل جیتنے مفلوک الحالوں کے‘ جو دنیا بھر کے زر و جواہر سے بھی زیادہ قیمتی ہیں مگر یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آرہی کیونکہ وہ خود کو اعلیٰ مخلوق سمجھتے ہیں لہذا وہ ایسا کیوں کریں گے اسی لئے یہی ایک مخلوق شروع دن سے حکمرانی کرتی چلی آرہی ہے عوام کو اقتدار کے قابل ہی نہیں سمجھتی جبکہ ان کی تعداد پچانوے فیصد ہے جن کے نام پر قرضہ لیا جاتا ہے مگر اس کا ایک بڑا حصہ یہ مخلوق خود پر خرچ کر ڈالتی ہے یوں خزانہ خالی ہوتا رہتا ہے اور لوگوں کے گزرتے لمحات کو اذیت میں مبتلا کرتا جاتا ہے اس وقت جب موسم کی حدت و شدت کم کرنے کے لئے کوئی غریب ایک پنکھا بھی چلاتا ہے تو اسے اتنا بل آ جاتا ہے کہ اس کی چیخیں نکل جاتی ہیں مگر ہمیں یقین ہے کہ یہ موسم بدلے گا جو آنسو آج بہہ رہے ہیں وہ رُک جائیں گے کیونکہ قانون فطرت حرکت میں آنے والا ہے ”سیانی سیاست“ اشرافیہ کے حصار سے نکل کر حقیقی نمائندوں کے پاس آرہی ہے اور پھر جلد عوامی راج کا ایک ایسا قہقہہ بلند ہو گا جس کی گونج بہت دور تک سنی جائے گی !