بنوں۔ دہشت گردی، امن مارچ اور دھرنا…..حیدر جاوید سید
ہفتہ کی صبح امن مارچ کے دھرنا دینے والے افراد کو سپورٹس کمپلیکس کی طرف نہیں جانے دیا گیا جس پر انہوں نے بنوں کے " اللہ چوک " پر دھرنا دے دیا۔
اس وقت (ہفتہ دوپہر ڈیڑھ بجے) بنوں میں کیا ہورہا ہے۔ کل بروز جمعہ بنوں کے امن مارچ میں کیا ہوا، سوشل میڈیا پر اٹھائے گئے بعض سوالات سنجیدہ تھے۔ احمقانہ بات صرف پشتونوں کو مورد الزام ٹھہرانے والی وہ پوسٹیں اور ٹیویٹس تھیں جن کے اکائونٹ ہولڈرز کا دعویٰ ہے کہ وہ پنجابی قوم پرست ہیں۔
ان پوسٹوں اور ٹیویٹس پر دشنام طرازی کا بین الاقوامی مقابلہ دیکھنے کے لائق تھا نہ پڑھنے کے لیکن کون کیا کہہ رہا ہے اس کے کہے کے پیچھے مقصد کیا ہے اور نتیجہ کیا نکلے گا یہ جاننا سمجھنا ازبس ضروری ہے۔
ہفتہ کی صبح امن مارچ کے دھرنا دینے والے افراد کو سپورٹس کمپلیکس کی طرف نہیں جانے دیا گیا جس پر انہوں نے بنوں کے ” اللہ چوک ” پر دھرنا دے دیا۔
اس وقت جب یہ سطور لکھ رہا ہوں بنوں میں چھائونی کی حدود مکمل طور پر سیل ہے۔ فون و انٹرنیٹ بند ہیں۔ سوشل میڈیا پر دھرنا دینے والوں کی تعداد کے حوالے سے جو بھی کہا جائے وہ ان کا حق ہے مگر صبح جب دھرنے کا آغاز ہوا تھا تو لگ بھگ ایک ہزار لوگ تھے اس وقت یہ تعداد بارہ پندرہ سو کے درمیان ہے۔
جمعہ کے امن مارچ کے دوران رونما ہوئے افسوسناک واقعہ کے حوالے سے جو دعوے سامنے آئے ان کی چھان پھٹک کے بغیر انہیں آگے بڑھانے میں کس کا کیا مفاد تھا۔ ان سطور میں اس پر بحث اٹھانے اور اس موقف پر بھی تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں کہ افغان کرکٹ ٹیم نے کیسے کہہ دیا تھا کہ "پاکستنان خصوصاً خیبر پختونخوا میں حالات خراب ہیں اس لئے میچ کھیلنے نہیں جائیں گے‘‘۔
البتہ یہ سوال اہم ہے کہ جو لوگ ان میں امن مارچ کے منتظمین بھی شامل ہیں گزشتہ روز چار سے پانچ افراد کی اموات کا دعویٰ کررہے تھے وہ اب کم از کم یہ تو بتادیں کہ ان کا دعویٰ نما الزام کس بنیاد پر تھا کیونکہ جمعہ کے واقعہ میں اگر چار یا پانچ (یہاں میں سوشل میڈیا پر 170سے 190 یا 195 اموات کے ذکر کی بات نہیں کررہا) اموات کا کہا جارہا تھا پھر جنازہ صرف ایک مرحوم کا کیوں ہوا؟
انسان بھلے ایک ہی جان سے گیا ہو یہ المیہ ہی کہلائے گا۔
فی الوقت صورت یہ ہے کہ ایک شخص کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوئی ہے اور 22 افراد کے زخمی ہونے کی۔ باقی نعشیں اور زخمی کہاں گئے۔ یہ اہم ترین سوال ہے۔
اسی طرح یہ سوال بھی اہم ہے کہ امن مارچ کے مقررہ راستے سے ہٹ کر دو تین سو لوگوں کے دو گروپوں کو چھائونی کی طرف دو مقامات پر کون لے گیا۔ انہی دو گروپوں میں موجود چند افراد فائرنگ کرتے دیکھائی دیتے ہیں یہ کون لوگ تھے۔
ضمنی سوال یہ ہے کہ کیا امن مارچ منظم کرنے والے یہ نہیں سمجھتے کہ ان دو واقعات کی وجہ سے ان کا وہ مقدمہ کمزور ہوا جو امن مارچ کی بنیاد بنا تھا
یعنی چھائونی حملے میں مارے گئے لوگوں میں تمام دہشت گرد نہیں تھے چند شہری بھی مارے گئے۔
بنوں امن مارچ کے پس منظر میں فوری اشتعال بہرطور چھائونی پر خودکش حملے کے دوران سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے مرنے والے 10 افراد میں تین چار عام شہریوں کو دہشت گرد قرار دینا تھا لیکن کیا محض یہ ایک واقعہ اس مارچ کی بنیاد بنا ۔ کم از کم میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے اس لئے آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ موجودہ صورتحال کے پس منظر کو سمجھے بغیر اس پر جذباتی بحث، پنجابی فوج اور پشتون مقتول یا ایسی باتیں کرنا جن سے مسائل حل ہونے کی بجائے گھمبیر ہوں کسی بھی طرح درست نہیں ہوگا
البتہ سوشل میڈیا پر ہارون وزیر کے نام سے لکھی گئی جو تحریر وائرل ہوئی ہے اس میں چند نکات ایسے بہرطور ہیں کہ ان پر بات کی جائے اور سکیورٹی فورسز و انتظامیہ کے ذمہ داروں کے سامنے سوال رکھے جائیں یہ لوگ جواب نہ دیں یا جواب تسلی بخش نہ ہوں تو تلخیوں میں اضافے کا تدارک ممکن نہیں ہوگا۔
ہارون وزیر کی تحریر کا اہم نکتہ بنوں ٹائون شپ کے باہر غیر ریاستی مسلح افراد کا اکثر ناکہ لگاکر اپنے تئیں مطلوب افراد کو بزور قوت کے ساتھ لے جانا ہے۔
دوسرا نکتہ غیرریاستی مسلح افراد کا بنوں میں نجی عدالتیں قائم کر کے لوگوں کو اطلاع دینا ہے کہ تمہارے خلاف شکایت ہے کل فلاں جگہ اپنی صفائی کے لئے پیش ہوجائو۔
اس تحریر کا سب سے اہم نکتہ بلکہ الزام کہہ لیجئے یہ ہے کہ سال بھر قبل بنوں ٹائون شپ کے مضافات میں بسائے گئے غیر ریاستی مسلح افراد کے ایک گروپ نے دن دہاڑے ایک لڑکے کو اغوا کرلیا۔ مغوی کے گائوں والوں نے اغوا کاروں کے گھروں کا محاصرہ کرلیا۔ لڑکے کی رہائی کے ساتھ فوری علاقے چھوڑنے کے لئے الٹی میٹم دیا اسی دوران محاصرہ کرنے والے افراد کے ذمہ داران کو ٹیلیفون پر کہا گیا کہ
” اگر آپ لوگوں نے بلاتاخیر محاصرہ ختم نہ کیا یا ان لوگوں کے یہاں سے نکالا تو نتائج کے ذمہ دار بھی آپ ہوں گے”۔
ہارون وزیر کی تحریر کے یہ تینوں نکات بہت اہم ہیں ان سے زیاہ اہم یہ الزام ہے کہ لگ بھگ دو اڑھائی سال کے عرصے میں غیرریاستی مسلح افراد اور ان کے خاندانوں کی بڑی تعداد کو بنوں شہر کے مضافات کے دیہاتوں میں لاکر بسایا گیا۔
یہ غیرریاستی مسلح گروپ ہر قسم کے اخلاقی جرائم میں ملوث ہیں۔ بھتہ لیتے ہیں، اغوا کرتے ہیں ، نجی عدالتیں لگاکر شہریوں کو دھمکاتے ہیں۔
ہارون وزیر کا خیال ہے کہ جمعہ کو ہونے و الا امن مارچ اصل میں پچھلے ڈیڑھ دو سال کے واقعات پر پکنے والا لاوا تھا اسے پھٹنے کے لئے چھائونی پر دہشت گردوں کے حالیہ حملے کے بعد پیدا ہوئی صورتحال نے جواز فراہم کیا۔
غیرریاستی مسلح افراد اور ان کے خاندانوں کو کس نے لاکر بنوں اور خیبر پختونخوا میں بسایا؟ اس سوال کا جواب دیتے یا تلاش کرتے ہوئے اخلاقی جرات کے مظاہرے کی ضرورت ہے۔
صورتحال کو سمجھنے کے لئے تحریک انصاف کے دور حکومت میں ٹی ٹی پی سے ہوئے کابل مذاکرات اور اس میں طے پانے والے امور کے ساتھ چند دیگر اہم باتوں کو مدنظر رکھنا ہوگا۔
جان کی امان قائم رہے تو میں ایک سوال پوچھ سکتا ہوں کہ اگر ریاستی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی شامل نہیں تھی تو کیا خودتنہا تحریک انصاف اس پوزیشن میں تھی کہ وہ ہزاروں غیرریاستی مسلح افراد اوران کے خاندانوں کو خیبر پختونخوا میں لابساتی؟ ویسے یہ صورتحال صرف بنوں میں ہی نہیں سوات، ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ وغیرہ سے بھی ایسی شکایات سامنے آتی رہتی ہیں۔
ہمارا موضوع چونکہ بنوں امن مارچ، پس منظر، اشتعال ، مارچ کے دوران رونما ہوا افسوسناک واقعہ اور دھواں دھار الزامات ہیں اس لئے بات کو پھیلانے سے گریز کرتے ہیں۔
وہ لوگ جو 170 سے 190 یا 195 اموات اور 500 سے زیادہ افراد کے زخمی ہونے کا سوشل میڈیا پر دعویٰ ٹھوکتے ہوئے جمعہ کی سپہر سے ریاست کے ساتھ خاموش رہنے والوں کو مجرم قرار دیتے رہے کیا اب لال مسجد والے مولویوں کی طرح یہ دعویٰ کریں گے کہ ان مرنے والوں اور زخمیوں (ایک شخص جاں بحق اور 22 زخمیوں کے علاوہ) کو کسی خاص کیمیکل کے ذریعے صاف کردیا گیا یا پھر وہ اپنے دعوئوں کے ثبوت میں مرنے والوں کی اتنی ہی تعداد میں نعشیں اور زخمیوں کی تعداد دعوے کے مطابق ثابت کریں گے؟
باردیگر عرض ہے چاہے ایک شخص ہی جاں بحق کیوں نہ ہوا ہو المیہ بہرطور ہے۔
جمعہ کے امن مارچ اور افسوسناک واقعہ کے حوالے سے فوری طور پر تین موقف سامنے آئے، پہلا موقف ان دو گروپوں کا ہے جو ڈیڑھ دو سو افراد کی ٹولیوں میں چھائونی کی طرف گئے اور ہنگامہ کیا۔ یہ کہتے ہیں فائرنگ سکیورٹی فورسز نے کی۔
ایک موقف یہ ہے کہ فائرنگ پولیس نے کی اس موقف کو چند صحافیوں کی تائید بھی حاصل ہے۔
تیسرا موقف مظاہرین میں شامل افراد کی فائرنگ کاہے
ان تینوں میں سے سچ کیا ہے اس کے لئے آزادانہ تحقیقات ضروری ہے لیکن پورا سماج جس بداعتمادی کو رزق بنائے ہوئے ہے ایسے میں سچ کون اور کیسے سامنے لائے گا؟