رونالڈ ریگن سے ڈونلڈ ٹرمپ تک: عامر خاکوانی کا کالم
پہلے فائر کی آواز پر سیکریٹ سروس کے ایجنٹس اور صدر ریگن نے سمجھا کہ شاید کسی نے پٹاخہ چلایا ہے۔ نوجوان جس کی شناخت بعد میں جان ہنکلے جونیئر کے نام سے ہوئی، اس نے پونے دو سکینڈز میں چھ فائر داغ دیے۔
30 مارچ 1981 ڈھائی بجے سہ پہر: امریکی صدرڈونلڈ ریگن ہلٹن ہوٹل واشنگٹن میں اپنی تقریر کے بعد باہر نکل رہے تھے، ان کی لیموزین کار ہوٹل کے گیٹ سے بمشکل 30 فٹ دور تھی۔ صدر نے اسی وجہ سے حفاظتی بلٹ پروف جیکٹ پہننے کی تجویز مسترد کر دی تھی۔ جیسے ہی صدر باہر نکلے، وہاں کچھ لوگ اور رپورٹرز موجود تھے، ایک جرنلسٹ نے پکار کر کہا مسٹر پریزیڈنٹ۔ صدر ریگن نے اس جانب دیکھا اور عین اسی لمحے ایک نوجوان نے ریوالور سے ان پر فائرنگ کر دی۔
پہلے فائر کی آواز پر سیکریٹ سروس کے ایجنٹس اور صدر ریگن نے سمجھا کہ شاید کسی نے پٹاخہ چلایا ہے۔ نوجوان جس کی شناخت بعد میں جان ہنکلے جونیئر کے نام سے ہوئی، اس نے پونے دو سکینڈز میں چھ فائر داغ دیے۔
سیکریٹ سروس کے دو ایجنٹس نے صدر ریگن کو نیچے گرا کر ڈھانپ لیا اور پھر سرعت سے انہیں لیموزین میں ڈال کر فوری روانہ ہوگئے۔ اس دوران ہنکلے جونیئر کی چلائی گولیوں نے صدر کے پریس سیکریٹری جم بریڈی کو شدید زخمی کیا۔ بریڈی کے سر میں گولی لگی جس سے دماغ کو شدید نقصان پہنچا، میٹروپولیٹن پولیس افسر تھامس اور سیکریٹ سروس ایجنٹ ٹموتھی میکارتھی بھی زخمی ہوئے۔ درحقیقت میکارتھی ہی نے صدر ریگن پر چلائی جانے والی پہلی گولی اپنی چھاتی پر کھائی۔
سیکریٹ سروس ایجنٹس امریکی صدر کو لیموزین میں ڈال کر روانہ ہوگئے۔ وہ وائٹ ہاﺅس جانا چاہتے تھے۔ صدر ریگن کی خوش قسمتی کہ اس سفر کے دوران سیکریٹ سروس کے ایجنٹ نے دیکھا کہ صدر نے جس رومال سے چہرہ ڈھانپ رکھا ہے اس پر خون لگا ہے۔ ریگن نے کہا شاید میری زبان کٹ گئی ہے۔ تربیت یافتہ ایجنٹ کو مگر شک ہوا کہ کہیں کوئی گولی صدر کی پھیپھڑے میں تو نہیں لگی جس کے باعث منہ سے خون نکلا۔
گاڑی فوری طور پر جارج واشنگٹن یونیورسٹی ہسپتال موڑ دی گئی جو کہ موقعہ واردات سے صرف چار منٹ دور تھا۔ ریگن کو وہاں فوری طور پر ایمرجنسی مدد فراہم کی گئی، چند ہی منٹوں میں ان کی سرجری شروع ہوگئی اور وہ بچ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر چند منٹ تاخیر ہوجاتی یا اتفاقی طور پر ماہر ڈاکٹرز شعبہ ایمرجنسی کے بالکل قریب ایک میٹنگ کی وجہ سے موجود نہ ہوتے تو شاید جان ایف کینیڈی کے بعد ایک اور امریکی صدر قاتلانہ حملے میں قتل ہوجاتا۔
ہسپتال میں صدر ریگن نے اپنی شگفتہ مزاجی اور حاضر دماغی کی دوتین دلچسپ مثالیں پیش کیں۔ ڈاکٹروں نے صدر ریگن کا ہزاروں ڈالر قیمتی سوٹ کاٹ کر زخم کا معائنہ کرنا چاہا۔ ریگن نے مسکرا کر کہا کہ آپ لوگوں نے میرا بڑا نقصان کر دیا ہے۔ یہ بات بعد میں ان کی ٹیم نے پریس بریفنگ میں یہ تاثر دینے کے لیے بتائی کہ صدر پوری طرح ہوش وحواس میں ہیں اس لیے یہ جملہ بولا۔ چند ہی منٹوں میں ان کی اہلیہ نینسی ریگن وائٹ ہاﺅس سے ہسپتال پہنچ گئیں۔ ریگن اس وقت ہوش میں تھے۔ انہوں نے بیوی کو دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’ہنی! میں نیچے جھکنا بھول گیا تھا۔ یہ ایک مشہور فقرہ تھا جو باکسر جیک ڈیمپسی نے اپنی بیوی سے کہا تھا جب وہ ایک فائٹ میں مخالف باکسر کے پنچ سے ناک آوٹ ہوگیا تھا۔
آپریشن تھیٹر میں سرجری سے پہلے ری پبلکن پارٹی کی جانب سے صدر منتخب ہونے والے رونالڈ ریگن نے ایک بار پھر شگفتہ مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماسک چہرے سے ہٹایا اورڈاکٹروں کو مخاطب کرکے کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ آپ تمام ری پبلکن (صدر کی سیاسی جماعت سے) ہوں گے؟ ڈاکٹر اور نرسیں اس پر ہنس پڑیں۔ اس پر ایک ڈیموکریٹ ڈاکٹر نے وہ فقرہ کہا جو امریکہ میڈیا میں بہت مشہور ہوا کہ ’مسٹر پریزیڈنٹ، آج ہم سب ری پبلکن ہیں۔‘
صدر ریگن پر ہونے والا حملہ امریکی سیکریٹ سروس کی تاریخ کی چند بدترین ناکامیوں میں سے ایک تھا۔ یہ بڑا بلنڈر اور بہت بڑا سکیورٹی لیپس تھا۔ سیکریٹ سروس والے صدر کی سکیورٹی کے مناسب انتظامات نہ کر سکے ۔ انہیں صدر ریگن کو ہرحال میں بلٹ پروف جیکٹ پہنانا چاہیے تھی۔ وہ حملہ آور کو صدر سے صرف دس پندرہ فٹ قریب آنے سے نہ روک سکے۔ تب سیکریٹ سروس ایجنٹ میگنیٹک ڈیوائس سے لوگوں کی چیکنگ نہیں کیا کرتے تھے ،صرف وائٹ ہاﺅس میں جانے والوں کی سکریننگ ہوتی۔
ان کے پاس کوئی ایسا انتظام نہیں تھا جس سے پتہ چلتا کہ کون رپورٹر ہے اور کون محض تاثر دے رہا ہے۔ حملہ آور ہنکلے جونیئر رپورٹر بن کر اتنا قریب آ گیا تھا۔ اس حملے کے بعد یو ایس سیکریٹ سرو س کے بہت سے قواعد وضابطے تبدیل کرنے پڑے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ہنکلے ایک نفسیاتی مریض ہے اور وہ اداکارہ جوڈی فوسٹر کا جنونی عاشق ہے اور اسے متاثر کرنے کے لئے اس نے ایسا کیا۔
اس واقعے کوچالیس سال سے زیادہ ہو گئے۔ چند دن پہلے امریکی صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ پر ہونے والے قاتلانہ حملے نے جہاں دنیا بھر میں ایک حیرت کی لہر پیدا کی، وہاں امریکی سیکریٹ سروس کی غلطیوں، بلنڈرز اور خوفناک حد تک جانے والی نااہلی نے اس میدان کے ماہرین کو حیران پریشان کر دیا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یوں آسانی کے ساتھ ایک نوجوان صدارتی امیدوارٹرمپ کو رائفل کی فائرنگ کا نشانہ بنا دے گا۔ یہ ایک مشترک نکتہ ہے کہ صدر ریگن ری پبلکن تھے جبکہ ٹرمپ بھی ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ہیں۔ حملہ کے وقت دونوں ( ریگن، ٹرمپ ) ستر سال سے زائد عمر کے تھے، ٹرمپ البتہ چند سال مزید بزرگ ہوچکے ہیں۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اردو کے جاسوسی ناولوں میں سیکرٹ سروس سے مراد سی آئی اے یا را یا پھر موساد ٹائپ خفیہ ایجنسی لی جاتی ہے۔
امریکی صدور اور ممکنہ صدور (صدارتی امیدواروں) کی حفاظت کی ذمہ داری جس ایجنسی کے سپرد ہے، اسے سیکریٹ سروس کہا جاتا ہے اور اس کا ایک ہی بنیادی اور اہم ٹاسک ہے کہ صدر یا ممکنہ صدر کو ہر قیمت پر بچایا جائے۔
خاصے عرصے کے بعد امریکی سیکریٹ سروس ایسی بری طرح ناکام ہوئی اور ایک اہم ترین صدارتی امیدوار بال بال بچا ہے، جبکہ جلسہ کے شرکا میں سے ایک کی جان چلی گئی۔ سیکریٹ سروس کی ڈائریکٹر کمبرلے چیٹل کو مستعفی ہونا پڑا ہے۔ کانگریس کی ایک کمیٹی میں انہیں بلا کر کئی گھنٹے تک تند وتیز سوالات کئے گئے۔ کمبرلے چیٹل نے واقعہ کی ذمہ داری قبول کی تھی، مگر مستعفی ہونے سے انکار کیا تھا۔ ری پبلکن اور ڈیمو کریٹ دونوں جماعتوں کے اراکین کانگریس نے ڈائریکٹر کمبرلے پر سخت تنقید کی اور کہا کہ وہ کچھ چھپا رہی ہیں۔ انہوں نے ان کی برطرفی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ بڑھتے ہوئے دباﺅ نے سیکریٹ سروس کی ڈائریکٹر کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا، کئی سوالات مگر ابھی موجود ہیں۔
اس پر تحقیقات ہو رہی ہیں کہ کہاں اور کون کون سی غلطیاں ہوئیں؟ سب سے زیادہ تشویش اور حیرت اس پر ظاہر کی جا رہی ہے کہ جہاں ٹرمپ کی تقریر تھی، وہاں سامنے اور آس پاس کی چھتیں کلیئر کیوں نہیں کرائی گئیں؟ یہ تو اتنے سامنے کی بات تھی جسے قطعاً نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر بھی حیرت ظاہر کی جا رہی ہے کہ جب عینی شاہد نے پولیس کو مشتبہ مجرم کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ رائفل لئے گھوم رہا ہے، اس کے باوجود بھی اسے پکڑا کیوں نہیں گیا۔
اس پر بھی تنقید ہو رہی ہے کہ سیکریٹ سروس نے بہت کاموں کے لیے مقامی پولیس پر انحصار کیا، حالانکہ وہ اتنی اچھی طرح تربیت یافتہ نہیں تھے۔ یہ خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ مشتبہ شخص کے بارے میں معلومات سیکریٹ سروس کو فراہم کی گئیں، مگر بروقت ایکشن نہیں لیا گیا۔ ایک نکتہ یہ بھی سامنے آیا کہ سیکریٹ سروس ایجنٹ نے گولی چلنے کے بعد اچھے طریقے سے ڈونلڈ ٹرمپ کو کور کیا، مگر وہ انہیں برق رفتاری سے نہیں لے جا سکے اور ٹرمپ نے اپنے جوتے پہننے اور پھر مکے لہرانے وغیرہ میں قیمتی دو تین منٹ ضائع کر دیے۔
رونلڈ کیسلر ایک معروف امریکی مصنف ہیں، وہ سی آئی اے، ایف بی آئی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ کیسلر کی ایک دلچسپ کتاب امریکی سیکریٹ سروس پر ہے۔ انہوں نے مختلف امریکی صدور کے ساتھ کام کرنے والے سیکریٹ سروس ایجنٹس سے گفتگو کر کے ان کے دلچسپ مشاہدات، تجربات اور ایجنسی کے طریقہ کار کے حوالے سے تفصیلی معلومات فراہم کی ہیں۔
ڈھائی سو صفحات کی یہ کتاب پچھلے دو تین دن میں پڑھتا رہا ہوں۔ کتاب بڑی دلچسپ ہے اور اس سے نہ صرف سیکریٹ سروس کے کام کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، وہاں مختلف امریکی صدور کے پروفائل اور عادات کا بھی پتہ چلتا ہے۔ کیسلر نے ان کمزوریوں اور خامیوں کی بھی نشاندہی کی جس کی وجہ سے سیکرٹ سروس کے کام میں خلا رہ جاتے ہیں اور غلطیاں ہوجاتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سیکریٹ سروس کے ایجنٹس شدید دباﺅ میں زندگی گزارتے ہیں۔ درحقیقت وہ امریکی صدور یا ممکنہ صدور کی حفاظت کی خاطر عملی طور پر اپنی زندگی داﺅ پر لگاتے ہیں۔ اب ٹرمپ پر اسی حملہ کو دیکھ لیں۔ پہلے فائر کے بعد ان ایجنٹس نے انہیں نیچے گرا کر خود اوپر لیٹ گئے۔ ان کے سر اونچے تھے اور وہ چاروں طرف سے اُمنڈتے ممکنہ خطرہ کو دیکھ رہے تھے۔ اگر مزید گولیاں چلتیں تو یقینی طور پر یہ سیکریٹ ایجنٹس ہی نشانہ بنتے۔
مصنف کیسلر نے اپنی کتاب میں یہ بھی نشاندہی کی کہ بعض اوقات خود امریکی صدور یا صدارتی امیدوار اپنی بے پروائی یا غیر ذمہ دارانہ رویہ کے باعث خطرات کو بڑھا دیتے ہیں۔ اب جیسے ٹرمپ نے کھڑے ہونے کے بعد اپنے جوتے پہننے پر اصرار کیا اور سیکریٹ سروس ایجنٹس کو ماننا پڑا۔ حالانکہ ایسے خطرے کے موقع پر سکینڈ بھی اہم ہوتے ہیں۔ سب سے اہم ہوتا ہے کہ خطرے کی جگہ سے دور ہوا جائے کیونکہ حملہ آور ایک سے زائد ہوسکتے ہیں اور کوئی بیک اپ پلان بھی موجود ہوسکتا ہے۔
کیسلرنے سیکریٹ سروس ایجنٹس سے اپنے انٹرویوز کی بنیاد پر بتایا کہ صدر کینیڈی اس حوالے سے خطرات کو بہت زیادہ دعوت دیتے تھے، وہ ہمیشہ کھلی گاڑی میں سفر کرنے پر اصرار کرتے۔ صدر کینیڈی پرجان لیوا حملہ بھی ایسے ہی ایک سفر میں ہوا۔ صدر لنڈن بی جانسن کو سیکریٹ ایجنٹس نے زیادہ ڈیمانڈنگ اور تلخ مزاج کا قرار دیا۔ وہ اکثر راستے میں گاڑی رکوا لیا کرتے۔ سیکریٹ سروس ایجنٹ کے مطابق صدر نکسن کچھ زیادہ محتاط تھے اوروہ وائٹ ہاﺅس اور کیمپ ڈیوڈ میں ٹھیرے رہنے کو ترجیح دیتے۔ جمی کارٹر کی لمبی جوگنگ اور آخری منٹس میں کی جانے والی پلان کی تبدیلیوں سے تب کے سیکریٹ سروس ایجنٹ نالاں رہتے۔
صدر ریگن کے مزاح اور ایجنٹس کے لئے احترام والے رویے کو بہت سوں نے سراہا۔ جارج بش سینیئر کو بھی سیکریٹ سروس ایجنٹس اچھے لفظوں میں یاد کرتے رہے۔
مصنف کیسلر نے صدر کلنٹن کے حوالے سے اشارتاً بتایا کہ ان کی ذاتی زندگی کی وجہ سے ایجنٹس پریشان رہتے اور انہیں صدر کی کئی غلطیوں کو کور اپ کرنا پڑتا۔ کیسلر کو سیکریٹ سروس ایجنٹس نے بتایا کہ جارج بش جونیئر کا رویہ معقول ہوتا مگر نائن الیون حملوں کے بعد ان کے لیے خطرات بڑھ گئےتھے۔ صدر باراک اوباما کے تعاون کی سیکریٹ ایجنٹس ستائش کرتے ہیں مگر یہ اشارہ بھی کرتے ہیں اوباما کو ان کے سیاہ فام ہونے کی وجہ سے معمول سے زیادہ سکیورٹی چیلنجز کا سامنا تھا اور سکیورٹی بڑھانا پڑی تھی۔