اہم خبریںپاکستانتازہ ترین

اقوام متحدہ کے ماہرین کا پاکستان کی احمدی اقلیت کے خلاف تشدد کو روکنے پر زور

احمدیوں کو ان کے عقیدے کے مطابق شعائرِ اسلام پر عمل کرنے کا حق دینے کا مطالبہ

اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے جمعرات کو پاکستان کی احمدی اقلیتی برادری کے خلاف بڑھتے ہوئے امتیازی سلوک اور تشدد بشمول ماورائے عدالت قتل اور عبادت گاہوں پر حملوں کی اطلاعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
احمدیہ فرقہ جسے بنیاد پرست گروہ بدعتی سمجھتے ہیں، پاکستان میں کئی عشروں سے ظلم و ستم کا شکار ہے لیکن حالیہ برسوں میں دھمکیوں اور ہراسگی میں اضافہ ہوا ہے۔
"ہم پاکستان میں احمدیہ کمیونٹی کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک کی جاری رپورٹوں سے پریشان ہیں۔” یہ بات آٹھ آزاد ماہرین نے کہی جن میں ماورائے عدالت سزائے موت، اظہار رائے کی آزادی اور مذہب کی آزادی پر خصوصی نمائندے شامل تھے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا، "ان پرتشدد حملوں اور اس کا باعث بننے والی نفرت اور امتیاز کی وسیع فضا کا جواب دینے کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں۔”
ماہرین جن کا تقرر اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کرتی ہے لیکن وہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے بات نہیں کرتے، انہوں نے حالیہ مہینوں میں متعدد مخصوص واقعات پر روشنی ڈالی۔
ان میں آٹھ جولائی کو سعد اللہ پور میں دو احمدیوں کا ماورائے عدالت قتل اور چار مارچ کو ضلع بہاولپور میں احمدیہ کمیونٹی کے صدر کا قتل شامل تھا۔
انہوں نے سال کے آغاز سے احمدیوں کی عبادت گاہوں اور قبرستانوں پر ہونے والے حملوں کی تشویشناک تعداد کی اطلاع بھی نوٹ کی جن میں سے بعض ایسے ہیں جن کی وجہ سے عبادت گذاروں کو شدید زخم آئے۔
بیان میں مذہبی تعطیلات کے دوران احمدی عبادت گذاروں کی متعدد مبینہ صوابدیدی گرفتاریوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جن کا مقصد "مذہبی عبادات میں ان کی شرکت کو روکنا تھا۔”
احمدی اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں اور ان کا عقیدہ تقریباً ہر لحاظ سے مرکزی دھارے کے اسلام سے مشابہہ ہے۔
لیکن ان کا عقیدہ کہ تحریک کے بانی مرزا غلام احمد "مہدی” یا مسیحا تھے، اس کی بنا پر بالخصوص پاکستان میں انہیں گستاخ کافر قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ان کی برادری کی قیادت کے مطابق تقریباً 500,000 احمدی ہیں۔
آئین نے انہیں 1974 سے غیر مسلم قرار دیا ہے اور 1984 کا ایک قانون انہیں ان کے عقیدے کے اسلامی ہونے کا دعوی کرنے یا سرِعام شعائرِ اسلامی پر عمل کرنے سے منع کرتا ہے۔
ماہرین نے اصرار کیا، "احمدیوں کے اپنے عقائد کو پرامن طریقے سے ظاہر کرنے کے حق کا احترام کیا جانا چاہیے۔” انہوں نے خبردار کیا کہ "عدالتی ہراسگی غیر ریاستی عناصر کے ہاتھوں احمدیوں کے خلاف تشدد کو معمول پر لانے کا کام کرتی ہے۔”
انہوں نے پاکستان کی قومی اسمبلی کی گذشتہ ماہ ایک قرارداد کی منظوری کا خیرمقدم کیا جس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور دیا گیا کہ وہ مذہبی اقلیتوں سمیت تمام پاکستانی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
لیکن انہوں نے خبردار کیا، "امتیازی گفتگو کا مقابلہ کرنے کے لیے اس طرح کی نیک نیتی کی کوششیں غیر مؤثر ہوں گی جب تک وہ اس کی ساختی وجوہات (بشمول) توہینِ مذہب کے قوانین اور امتیازی قانونی دفعات کو ختم نہ کریں۔”

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button