خلیل الرحمان قمر کیسے ’ہنی ٹریپ‘ ہوئے
’ہنی ٹریپ‘ یا میٹھے جال کا مطلب ہے رومانوی یا جنسی تعلق بنا کر ہدف سے پیسہ یا معلومات نکلوانا۔۔۔
پاکستان میں ہنی ٹریپ جیسے واقعات کا سرا زیادہ تر کچے کے ڈاکوؤں سے جا ملتا ہے جو محبت و شادی سمیت دیگر جھانسے دے کر اب تک کئی لوگوں کو اپنے علاقے میں بلا کر لوٹ چکے ہیں۔
تاہم ہنی ٹریپ کا ایک بڑا واقعہ حال ہی میں لاہور میں سامنے آنے کے بعد یہ خدشات پیدا ہوئے ہیں کہ ایسی واردات کرنے والے گینگ شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔
اس کی حالیہ مثال مصنف اور ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر ہیں جنھیں پولیس کے مطابق ایک گینگ نے لاہور جیسے شہر میں ہنی ٹریپ کرکے یرغمال بنایا، اس دوران ان پر تشدد بھی کیا گیا اور ان سے بھاری رقم ہتھیائی گئی۔
خلیل الرحمان قمر کو لوٹنے والا گینگ کون تھا؟
خلیل الرحمن قمر کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈی آئی جی لاہور عمران کشور نے بتایا کہ اس کیس میں ملوث گینگ میں شامل لوگوں کا تعلق مختلف شہروں سے ہے اور’ تمام افراد ماسٹر مائنڈ حسن شاہ نامی شخص کے کہنے پر مل کر آپریٹ کر رہے تھے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ اس گینگ میں تین خواتین سمیت 12 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ ماسٹر مائنڈ ابھی بھی فرار اور اشتہاری ہے۔
ڈی آئی جی عمران کشور نے مزید بتایا کہ گرفتار ہونے والے ملزمان کا مختلف شہروں میں مجرمانہ ریکارڈ موجود ہے۔ جس میں قتل، زمینوں پر قبضہ، ڈکیٹی اور دیگر جرائم شامل ہیں۔
لیکن کیا اس طرز کے اور واقعات بھی ہو چکے ہیں؟
اس گینگ کو پکڑنے والی ٹیم کے سربراہ ڈی ایس پی فیصل شریف نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ابھی ان ملزمان سے مزید تفتیش کی جائے گی تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اور کتنے افراد اس گینگ کا نشانہ بن چکے ہیں۔‘
اس گینگ کو کیسے پکڑا گیا؟
اس گینگ کو پکڑنے والی ٹیم کے سربراہ ڈی ایس پی فیصل شریف نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’انھوں نے ڈیٹا ڈیلیٹ کر دیا تھا اور خلیل الرحمان قمر کا موبائل فون بھی ری بوٹ کر دیا تھا تاکہ ان کے پاس کسی قسم کا کوئی ریکارڈ باقی نہ رہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم نے ان کا فون ریکور کیا اور اس لڑکی کی تصویر نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ آمنہ عروج نامی لڑکی کو ہم نے فیس بک پر ٹریس کیا اور پھر ہم اس جگہ پر گئے جہاں اس نے خلیل الرحمان قمر کو بلایا تھا۔‘
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’ہم نے اس جگہ کی تمام سی سی ٹی وی فوٹیج نکلوائی اور ملوث افراد کی نشاندہی کرکے ڈیٹا کے ذریعے ان تک پہنچے۔ جب ایک دو افراد گرفتار ہو گئے تو انھوں نے دیگر لوگوں کی بھی نشاندہی کی۔ ان کے بتائے ہوئے پتوں پر ہم نے مختلف شہروں میں چھاپے مارے جس کے نتیجے میں ان سب کو گرفتار کیا گیا۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’جب خلیل الرحمان قمر ہمارے پاس آئے تو اس واقعے کو دو دن گزر چکے تھے۔ نو اور دس محرم کی وجہ سے عام تعطیل ہوتی ہے تاہم 10 محرم کے بعد خلیل الرحمان قمر بھی صدمے سے کچھ حد تک باہر نکل آئے تھے اور اس کے بعد انھوں نے پولیس سٹیشن آکر رپورٹ درج کروائی۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’گرفتار ہونے والے افراد کا تعلق لاہور، ننکانہ صاحب، شیخوپورہ اور گجرانوالہ سے ہے۔ اس واقعے کے رپورٹ ہونے کے آٹھ گھنٹے کے اندر اندر ہم نے ان 12 افراد کو گرفتار کیا جس میں ملزمہ آمنہ عروج بھی شامل ہے جس نے خلیل الرحمان قمر کو ہنی ٹریپ کیا تھا۔‘
یہ جرم شہروں میں کس حد تک پھیلا ہوا ہے؟
ڈی آئی جی عمران کشور کا کہنا تھا کہ خلیل الرحمان کا کیس حالیہ سالوں میں ایسا پہلا واقعہ ہے جو رپورٹ ہوا ہے۔ ’اس سے پہلے ہنی ٹریپ جیسے واقعات کچے جیسے دور دراز علاقوں میں رونما ہوتے تھے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’زیادہ تر لوگ ایسے واقعات رپورٹ نہیں کرتے کیونکہ ایک تو انھیں بدنامی کا ڈر ہوتا ہے دوسرا وہ جرائم پیشہ افراد سے ایک مرتبہ جان چھڑوا کر دوبارہ اسی کیس میں جانے سے ڈرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’خلیل الرحمان قمر کا معاملہ سامنے آنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس گینگ نے پہلے بھی تقریباً تین لوگوں کو اسی طرح ہنی ٹریپ میں پھنسا کر نشانہ بنایا ہے جس میں لاہور کے ہی ایک ریستوران کے مالک شامل ہیں جن سے تقریباً 35 لاکھ روپے تاوان وصول کیا گیا۔‘
’ہنی ٹریپ‘
خلیل الرحمان قمر کے ساتھ پیش آنے والا ہنی ٹریپ کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے دُنیا بھر میں اس طرح کے متعدد واقعات پیش آچُکے ہیں جن میں سے چند حالیہ واقعات کا ذکر یہاں کرتے ہیں۔
2023 میں انڈین ریاست مہاراشٹر کے انسداد دہشت گردی سکواڈ (اے ٹی ایس) نے ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) کے ایک سائنسدان کو گرفتار کیا تھا۔
ان پر پاکستان کے لیے مبینہ طور پر جاسوسی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اے ٹی ایس نے کہا تھا کہ ’یہ ’ہنی ٹریپ‘ کا معاملہ ہے اور پردیپ کورولکر نامی ایک سینیئر سائنسدان، جو پونے میں کام کرتے تھے، ایک پاکستانی ایجنٹ سے واٹس ایپ اور ویڈیو کالز کے ذریعے رابطے میں تھے۔‘
جاسوسی کی تاریخ میں شاید اب تک سب سے مشہور ’ہنی ٹریپ‘ جاسوس ماتا ہری کو بتایا جاتا ہے جو پہلی جنگ عظیم کے بعد مشہور ہوئی تھیں۔
ماتا ہری مشہور ناول نگار پاؤلو کوئلو کے ناول ’دی سپائی‘ میں مرکزی کردار ہیں۔ ان کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ’جب ماتا ہری پیرس پہنچیں تو ان کے پاس پیسے نہیں تھے لیکن جلد ہی وہ پیرس کے معاشرے کی سب سے زیادہ فیشن ایبل اور پرکشش خواتین میں سے ایک بن گئیں۔ زیادہ تر افسران یا فوجی ان کے ساتھ اپنی دوستی کے قصے سناتے نہیں تھکتے تھے۔‘
اگرچہ تاریخ کے مطابق ماتا ہری پر ’ہنی ٹریپ‘ کے الزامات کبھی بھی پوری طرح سے ثابت نہیں ہوسکے لیکن پھر بھی انھیں فرانسیسی حکومت نے سزا دی کیونکہ یہ معاملہ مبینہ طور پر انتہائی خفیہ دستاویزات کے دشمن تک پہنچنے کا تھا۔