ماحولیاتی آلودگی سے زندگی کو لاحق خطرات !….ناصف اعوان
جب تک دونوں کو حاصل کرنے کی کوششیں ایک ساتھ نہ کی جائیں سائنس دانوں نے بھی ہر دو فرائض کی مساوی اہمیت اور ان کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت کو بھانپ لیا ہے
بڑھتی ہوئی آبادی غربت کا سبب بن رہی تو غربت ماحول کو متاثر کر رہی ہے کیونکہ جن وسائل کو اس کے خاتمے کے لئے بروئے کار لایا جا رہا ہے اس سے عارضی یا مستقل معاشی بندوبست تو ہو جاتا ہے مگر ماحولیات کا مسلہ پیدا ہو کر گمبھیر ہوتا جا رہا ہے ۔
ماہرین کے مطابق غربت کو کم کرنے یا ماحول کو زوال سے بچانے کی کوششوں میں سے کسی ایک سمت بڑھنے کے بجائے دنیا کے لیڈروں کو اس حقیقت کا سامنا ہے کہ ان دونوں مقاصد میں سے کسی ایک کا حاصل کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک دونوں کو حاصل کرنے کی کوششیں ایک ساتھ نہ کی جائیں سائنس دانوں نے بھی ہر دو فرائض کی مساوی اہمیت اور ان کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت کو بھانپ لیا ہے اور ہمیں چوکنا کر دیا ہے مثال کے طور پر اسّی کی دہائی کے آخری برسوں تک دنیا کے جنگلات میں سترہ ملین ہیکٹرز سالانہ کے حساب سے کمی واقع ہو رہی تھی ۔یہ کمی انیس سو اسّی میں گیارہ ملین ہیکٹر تھی زیادہ زمین کو کاشت میں لانے کی ضرورت کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنگلات صاف ہوتے گئے ۔اس کی علاوہ ایندھن عمارتی لکڑی اور کاغذ کی صنعت کے لئے لکڑی کی مانگ میں اضافے سے جنگلات کی کٹائی کا عمل تیز ہو گیا ماریطانیہ اور ایتھوپیا جیسے چند ممالک ایسے ہیں جو درختوں کے سائے سے قریباً محروم ہو چکے ہیں کچھ اور ملکوں میں بھی برائے نام درخت باقی بچیں گے۔ہمارے ہاں بھی اگر شجر کاری مہم کا سنجیدگی سے آغاز نہ ہوتا تو ہمیں بھی مزید آلودگی کا سامنا ہوتا اس کے باوجود مجموعی طور سے ماحول آلودہ دکھائی دیتا ہے بہرحال آلودگی کے مسائل نے ایک مستقل عزاب کی شکل اختیار کر لی ہے ۔دنیا کے سینکڑوں شہروں کے علاوہ دیہاتی علاقے اس کی لپیٹ میں آگئے ہیں بمبئی کی فضا میں سانس لینا ایسے ہے جیسے سگریٹ پینا۔میکسیکو شہر کی ہوا کو زندگی کے لئے خطرہ سمجھا جا رہا ہے ۔ ہمارے ملک کے بڑے شہر جن میں لاہور بھی شامل ہے خطرناک آلودگی کی زد میں ہیں ۔ اگرچہ ان شہروں میں درخت لگانے کا رجحان بھی تقویت پارہا ہے مگر روز بروز گاڑیوں میں ہونے والے اضافے سے فضا مکدر ہو رہی ہے کیونکہ ان میں استعمال ہونے والے ناقص پٹرول میں سیسے کی ملاوٹ بہت ہوتی ہے اسی طرح بنکاک میں چلنے والی موٹر کاروں کا حال ہے لہذا وہاں شہر کی ہوا اڑتیس فیصد سے زائد مختلف قسم کے کیمیائی مرکبات پر مشتمل آمیزے میں تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔
اس کے علاوہ دنیا کے کئی حصوں میں ہوا کی آلودگی اور تیزابی بارشوں کی وجہ سے فصلوں اور جنگلوں کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔یورپ کے بہت سے جنگلات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں اور کئی ایسے بھی ہیں جو ختم ہو چکے ہیں۔ امریکا کی شمال مشرقی ریاستوں میں ”میپل“ کے قیمتی درختوں کی نشوونما میں واضح کمی دیکھی جارہی ہے جس سے چینی بنائی جاتی ہے ۔ چین میں بھی فضائی آلودگی کی بنا پر جنگلات کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے کیونکہ چین کوئلے کے استعمال میں امریکا کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے۔پولینڈ میں دریا کے پانی کی کم از کم نصف مقدار اتنی زیادہ آلودہ ہو چکی ہے کہ صنعتی استعمال کے قابل بھی نہیں رہی اس دوران کوریا میں بہت تیزی سے ہونے والی ترقی کے سبب یہاں کا دریا ”ناک ٹانگ“ بالکل ناکارہ ہو کر رہ گیا ہے کیونکہ انیس سو نوے میں اس کے کناروں پر تین سو تنتالیس کارخانوں سے خارج ہونے والا زہریلا مواد اس میں غیر قانونی طور سے بہا دیا گیا۔زیادہ عرصہ نہیں گزرا ٹائگو شہر کے لوگ ہزاروں کی تعداد میں بیمار پڑ گئے وجہ یہ تھی کہ ان کے گھروں میں استعمال ہونے والا پانی ایک کیمیائی مرکب فینول سے آلودہ ہو گیا تھا جو سرکٹ بورڈ بنانے کے کام آتا ہے۔
ناقص اور گھٹیا پانی کے استعمال کےنقصان دہ اثرات دنیا بھر میں سب سے زیادہ روس کے بحیرہ ایرال کے ساتھ نشیبی علاقے میں پائے گئے ہیں۔ ایرال کے قریب کچی آبادیوں میں سرطان کی شرح ملک کی مجموعی شرح کے مقابلے میں سات گنا بڑھ گئی.
عالمی سطح پر خرابی کی علامتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ صورت حال جس تیزی سے ابتر ہو رہی ہے اس کا اندازہ کرنا بھی آسان نہیں ۔امریکا کے فضائی ادارے ناسا نے انیس سو نوے میں فضا کی جو تفصیلات تیار کیں ان سے پتا چلتا ہے کہ زمین کی حفاظت کرنے والی اوزون کی تہہ میں شگاف سائنس دانوں کی توقع سے بھی دُگنی شرح سے ہو رہا ہے ۔ یہ شگاف اس وقت کافی حد تک سمٹ گیا تھا جب دنیامیں کرونا کی وبا پھیلی مگر اذاں بعد جب صنعتیں حرکت پذیر ہوئیں اور آمد رفت کا سلسلہ شروع ہوا تو دوبارہ پہلے والی صورت حال پیدا ہو گئی خیر سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ صرف امریکا میں معمول سے پونے دو ملین کے قریب افراد کی موت جلد کے کینسر میں مبتلا ہونے سے واقع ہو سکتی ہے ۔اوزون کو تلف کرنے والے کورو فلورو کاربنز (سی ایف سی) کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے اعداد و شمار جب سامنے آئے تو بین الاقوامی سمجھوتے کی ضرورت محسوس ہوئی تاکہ اس کے نقصانات سے بچنے کی راہ نکالی جا سکے اور سی ایف سی کی تیاری کو بتدریج گھٹایا جا سکے انیس سو نوے کے وسط میں ہونے والے اس سمجھوتے کے مطابق یہ طے پایا کہ دو ہزار تک سی ایف سی کو بالکل ختم کر دیا جائے گا مگر اب یہ معلوم ہوا ہے کہ جن اعدادو شمار کو بنیاد بنا کر یہ فیصلہ کیا گیا تھا وہ بہت کم تھے اس لئے سی ایف سی کے خاتمے کے لئے مزید تیزی چاہیے ہوگی اگر ان کی پیدا وار فوری طور سے بند کر دی جائے تو بھی اوزون کو نقصان دو تین عشروں تک جاری رہے گا اور آنے والے دنوں میں دھوپ سینکنے کو بھی اتنا ہی نقصان دہ سمجھا جائے گا جتنا آج سگریٹ نوشی کو سمجھا جاتا ہے ۔
لیٹر آر براؤن اور کرسٹوفر فلاون کہتے ہیں کہ فضا میں اور تبدیلیاں بھی تیز رفتاری سے آرہی ہیں کہ ڈیزل پٹرول وغیرہ کے جلنے سے کاربن کی مقدار کہیں زیادہ ہوگئی ہے کاربن اور دوسری گرین ہاؤس گیسوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی مقدار سے جو زیادہ تر صنعتی ملکوں میں پیدا ہوتی ہیں سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مستقبل میں عالمی اوسط درجہ حرارت برق رفتاری سے بڑھے گا ۔
قارئین کرام ! اس چشم کشا حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے پوری دنیا کے با اختیار وں کو سوچنا ہو گا کہ وہ زیادہ سے زیادہ مال و زر اکٹھا کرنے کے لئے جس دوڑ میں شامل ہیں وہ بالآخر اس کرہ ارض کو وباؤں کی لپیٹ میں لے سکتی ہے اگرچہ ترقی یافتہ ممالک میں متوقع صورت حال سے محفوظ رہنے کے لئے کچھ اقدامات کیے جا رہے ہیں مگر وہ ناکافی ہیں !