جنرل ر فیض حمید کی گرفتاری ….حیدر جاوید سید
’’سابق آرمی چیف کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کئے جانے پر اندرونی دبائو بہت زیادہ ہے گرفتاری سے جوانوں کا مورال ڈائون ہوگا‘‘۔
آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ جنرل (ر) فیض حمید کی گرفتاری ملکی تاریخ اور نظام حکومت کا اہم واقعہ ہے۔ ان سے قبل ایک سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ درج ہوا تھا تب اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ان کی گرفتاری کی اجازت یہ کہہ کر دینے سے انکار کردیا تھا کہ
’’سابق آرمی چیف کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کئے جانے پر اندرونی دبائو بہت زیادہ ہے گرفتاری سے جوانوں کا مورال ڈائون ہوگا‘‘۔
بعدازاں چوتھے فوجی آمر کو جس طرح گھر سے عدالت لے جانے کے دوران ملٹری ہسپتال پہنچایا گیا اور پھر وہ اڑنچھو ہوگئے ایک الگ کہانی ہے۔ وہ ایک بار وطن واپس آئے بھی ۔ جن لوگوں نے کراچی ایئرپورٹ پر ان کے استقبال کے لئے 30 لاکھ افراد کے جمع ہونے کی نوید دیتے ہوئے ان سے اخراجات کے لئے ایک ارب روپے سکہ رائج الوقت نصف جن کے پچاس کروڑ ہوتے ہیں وصول پائے وہ خود بھی الحمدللہ ایئرپورٹ سے دور دور ہی رہے۔
جنرل مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزا سنانے والی خصوصی عدالت کے جج کے ساتھ کیا ہوا یہ "اللہ جانتا” ہے سامنے کی بات یہ ہے کہ خصوصی عدالت کے فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ نے اڑاکر رکھ دیا حالانکہ یہ اس کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا۔ اچھا اس ملک میں کون اپنے دائرہ اختیار میں رہتا ہے؟ کوئی بھی نہیں یہاں تو منبر پر جلوہ افروز خطیب جنت و دوزخ کے پلاٹ الاٹ کرنے لگتا ہے۔
معاف کیجئے گا یہ جنرل پرویز مشرف مرحوم کا تذکرہ یونہی آگیا۔ بات آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید کی گرفتاری سے شروع ہوئی تھی۔
آج کل ہمارے کچھ موسمی جمہوریت پسند صحافی اور اینکر حضرات ان کی ایسی ایسی خوبیاں بیان کررہے ہیں ان کے بارے میں نہ تو فیض حمید جانتے ہیں نہ ان کا سابق محکمہ۔
موصوف جس کیس میں سپریم کورٹ کے حکم پر جی ایچ کیو کی جانب سے ابتدائی تحقیقات کے بعد گرفتار کئے گئے یہ کیس سال 2017ء کا ہے۔ ہمارے پھٹے توڑ وزیر دفاع خواجہ آصف ان دنوں بھی وزیردفاع تھے افسوس کہ انہوں نے تب بطور وزیر دفاع اس کیس کی تحقیقات کا اہتمام نہیں کیا آج کل وہ اپنے محبوب اینکر سمیت چند دوسرے ٹی وی پروگراموں میں جنرل فیضحمید کی منہ زوریوں کی داستانیں بیان کرتے سنائی و دیکھائی دیتے ہیں ۔
ان کی گرفتاری کو 9 مئی کے کھاتے میں ڈالنے والے بھی اتاولے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیں۔ ان سے فیض اور عیدیاں پانے کے قصے بھی زبان زد عام ہیں۔
بہرطور ایک بات باردیگر واضح ہوئی کہ اختیار اور طاقت آدمی کو بے لگام بنادیتے ہیں۔ اختیار اور طاقت کے ماحول میں حدودوقیود کا پابند رہنا ’’دل گردے‘‘ کا امتحان ہے۔
جنرل ر فیض حمید کی اخباری شہرت 2017ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف فیض آباد چوک پر بنام ختم نبوت دیئے گئے دھرنے سے شروع ہوئی تھی۔ اس دھرنے والوں اور حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدہ میں وہ ضامن بنے۔ معاہدہ پر بطور ضامن ان کے دستخط بھی ہیں۔
فیض آباد دھرنے کی عدالتی تحقیقات کیلئے جو کمیشن بنا اس کے سربراہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تھے۔ اس عدالتی کمیشن کی رپورٹ پر نہ تو مسلم لیگ (ن) نے اپنے باقی ماندہ دنوں (اس وقت) میں کوئی کارروائی کی نہ ہی تبدیلی پسندوں نے اپنے ساڑھے تین برسوں میں البتہ تبدیلی پسندوں نے جنرل فیض حمید کی تیار کروائی دستاویزات کو ریفرنس کا نام دیتے ہوئے اپنے دور اقتدار میں جسٹس قاضی فیض عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھجوانے کی صدارتی منظوری دلوائی۔
اس ریفرنس کی ذمہ داری قبول کرنے والی حکومت کے سربراہ جناب عمران خان نے بعد کے دنوں میں یہ کہا کہ ریفرنس ہماری حکومت نے تیار کیا نہ بھجوایا مجھے اس کے لئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا ’’اس سادگی پہ کون مرنا چاہے گا؟‘‘۔
جنرل ر فیض حمید کی گرفتاری کے بعد عمران خان نے انہیں ایسا اثاثہ قرار دیا جسے ضائع کردیا گیا۔ لاریب وہ عمران خان اور ان کی جماعت کے لئے اثاثہ ہی تھے۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے افغانستان میں موجودہ ہزاروں جنگجوئوں کو ان کے خاندانوں سمیت پاکستان لابسانے اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کا منصوبہ انہی کا تھا۔ یاد کیجئے کہ سوات و مدائن کے علاقے میں واپس آنے والے جنگجوئوں نے صاف کہا کہ ’’انہیں جنرل ر فیض حمید نے کابل معاہدہ کے تحت واپسی کے لئے کہا تھا‘‘۔
معاملہ کالعدم ٹی ٹی پی سے کابل مذاکرات تک کا نہیں ہے نہ ہی اس کے ذمہ دار وہ اکیلے شخص ہیں۔
انہیں آئی ایس آئی کے نائب سربراہ سے سربراہ بنوانے کے لئے جنرل عاصم منیر کو آئی ایس آئی سے رخصت کیا گیا اس رخصتی کے پیچھے کی کہانیوں پر یہاں بات کرنے کی ضرورت نہیں۔
بنیادی طور پر یہ سربراہی ان کے لئے 2018ء کے انتخابی گھٹالے کا انعام تھی۔ 2018ء کے انتخابات کے دوران تحریک انصاف کو سنگل لارجسٹ پارٹی بنوانے کے لئے جنرل فیض حمید نے اپنے محکمے کو جس طرح استعمال کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کیسے مسلم لیگ (ن) بطن سے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کی ڈیلیوری کروائی گئی۔ کیسے (ن) لیگ کے ٹکٹ ہولڈروں نے پارٹی ٹکٹ واپس کرکے ’’جیپ ‘‘ کا انتخابی نشان لیا۔ یہی نہیں اور بھی "اللہ توبہ والی کہانیاں” 2018ء کے انتخابات کی اوقات کھولتی ہیں لیکن فائدہ؟
اس ملک میں کب شفاف و آزادانہ انتخابات ہوئے؟ کبھی بھی نہیں۔
1970ء کے جن انتخابات کو آزادانہ کہا جاتا ہے اس میں بھی امریکہ اور مقامی فوجی حکومت کی پسندیدہ جماعتوں میں کنونشن لیگ، قیوم لیگ، جماعت اسلامی اور نظام اسلام پارٹی (یہ مشرقی پاکستان کی جماعت تھی مولوی فرید احمد اس کے سربراہ تھے) شامل تھیں ان چار جماعتوں کو فوجی حکومت نے خوب مال دیا۔ امریکہ نے تو جماعت اسلامی کو انتخابی اخراجات میں امداد کے لئے چیک بھی بھجوایا تھا جس کا میاں طفیل محمد نے باضابطہ شکریہ بھی ادا کیا۔
معاف کیجئے گا سیاسی عمل اور نظام میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت، احکامات اور گرفت (ان میں مارشل لاء کے طرز حکمرانی کی مثالیں شامل نہیں ) کا جب بھی ذکر ہوگا پرانی باتیں یاد آئیں گی ۔
ہمارے لوگوں کا حافظہ (حافظ نہیں) کمزور ہے۔ باتیں بھول جلدی جاتے ہیں۔ کالم کا آغاز جنرل فیض حمید کی گرفتاری سے ہوا تھا۔ جنرل موصوف اب ملٹری ٹرائل کا سامنا کریں گے۔ ان کے چند دست راست بھی (یہ بھی سابق فوجی افسر ہیں) گرفتار ہوئے ہیں۔ یہ ساری گرفتاریاں ہائوسنگ سوسائٹی والے کیس میں نہیں ہوئیں۔ کچھ لین دین کے معاملات ہیں۔ یہ لین دین سیف ہائوسز میں رکھے گئے سرمایہ داروں کے ساتھ ہوئے تھے ایک الزام متوازی خفیہ ایجنسی چلانے کا بھی ہے۔ اسی طرح کابل برانڈ جنگجوئوں کے معاملات بھی ہیں۔ ایک الزام یہ بھی ہے کہ جنرل فیض حمید کے بعد جو معاونین دھرلئے گئے ہیں انہوں نے گزشتہ دو اڑھائی برسوں اور خصوصاً 9 مئی کے بعد پی ٹی آئی کے مفرور و مطلوب رہنمائوں کی اعانت کی۔
ان سب میں ایک اہم الزام یہ بھی ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان کے چالیس سے زائد جلسوں کے مالی اعانت کا بندوبست کرنے والوں میں جنرل فیض حمید اور ان کے چند معاونین کا کردار اہم ہے۔
مصدقہ و غیرمصدقہ اطلاعات کے بکھیڑے میں دامن الجھائے بغیر ہم صرف اتنی ہی بات کرسکتے ہیں جتنی تصدیق کرلی گئی ہو۔ مثال کے طور پر ایک بات کا بہت شہرہ ہے وہ ہے پاکستان سے افغانستان لے جائے جانے والے ڈالروں کا جس کے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ کہتے ہیں اس میں بھی کچھ نہ کچھ کردار گرفتار شدگان کا بھی ہے۔
بہرحال بتایا جارہا ہے کہ 50 کے قریب افراد واچ لسٹ میں ہیں۔ معاملہ ہائوسنگ سوسائٹی کے مقدمے تک محدود نہیں رہے گا عقابوں کے چند اور "نشیمن” بھی نشانے پر ہیں۔
کالم کے دامن میں گنجائش تمام ہوئی، آج کے لئے فقط اتنا ہی۔