طیبہ بخاری

ہمیں آزاد رہنے دو ۔۔۔کہانی ہجرت کرنے والوں کی…..طیبہ بخاری

یہ کہانی مجھ سمیت کئی لاکھ گھرانوں کی ہے۔۔۔ کروڑوں زندگیوں سے متعلق ہے۔۔۔۔اسے آپ کئی کتابوں میں پڑھ چکے،کئی مفکرین اورمبصرین سے سن چکے۔۔۔یہ آج بھی تازہ ہے

1947ءمیں ہجرت کرنیوالوں پر طویل نظم لکھی تھی اس میں سے انتخاب ملاحظہ کیجیے
آؤ سناؤں تمہیں کہانی ہجرت کرنے والوں کی
آؤ سناؤں تمہیں کہانی دیس پہ مٹنے والوں کی
لے کے آزادی جھومیں گے
بربادی کو بھی چومیں گے
ان کے دلوں میں بسی تھی حسرت مٹی میں مل جانے کی
آؤ سناؤں تمہیں کہانی ہجرت کرنے والوں کی
اس جدوجہد کو جانو تم
اس جدوجہد کو مانو تم
تمہیں اپنا آپ دکھائے گی
تمہیں سب کا ساتھ دکھائے گی
یہ داستاں ہے سب کو ملا کر اک رنگ میں ڈھل جانے کی
آؤ سناؤں تمہیں کہانی ہجرت کرنے والوں کی
ان ہجرت کرنیوالوں نے یوں سب کچھ اپنا دان دیا
مٹی کی محبت میں اپنی کئی نسلوں کو قربان کیا
یہ بچھڑے اپنے پیاروں سے
یہ تڑپے گل گلزاروں سے
غربت کی ٹھنڈی چھاؤں میں
یہ لپٹ گئے انگاروں سے
ان کے دلوں میں لگی تھی آگ عشق میں جل جانے کی
آؤ سناؤں تمہیں کہانی ہجرت کرنے والوں کی
یہ کہانی مجھ سمیت کئی لاکھ گھرانوں کی ہے۔۔۔ کروڑوں زندگیوں سے متعلق ہے۔۔۔۔اسے آپ کئی کتابوں میں پڑھ چکے،کئی مفکرین اورمبصرین سے سن چکے۔۔۔یہ آج بھی تازہ ہے
ہمارے آباؤ اجداد(جنہوں نے 1947ءمیں لدھیانہ سے لاہور تک ہجرت کی) جب تک جیئے ہمیں جدوجہد آزادی، ہجرت اور پاکستان کیلئے دی گئی اپنی اور لاکھوں افراد کی قربانیوں کی خون سے لکھی کہانی سناتے رہے۔۔۔
کہانی سننے اور سمجھنے والے ہوشیار رہیں کیونکہ اس میں کہیں بھی جھوٹ، سیاست، دغا، مکر و فریب، ریاکاری، مفاد پرستی نہیں۔۔۔سبھی کردار حقیقی ہیں فرضی نہیں۔۔۔سبھی قربانیاں اصلی ہیں، جعلی، دکھاوا یابناوٹ نہیں۔۔۔
یہ کہانی کسی سیاہی یا روشنائی سے نہیں بلکہ خون سے لکھی گئی ہے اور اس کے حرفوں سے ابھی تک خون رس رہا ہے۔۔۔یہ خون پرایا نہیں کسی دشمن کا بھی نہیں۔۔۔ہمارا ہے، ہمارے بڑوں کا ہے۔۔۔ہمارے بچوں کا ہے۔۔۔ہماری ماؤں بہنوں کا ہے۔۔۔منوں مٹی تلے سو جانیوالی نسلوں کا ہی نہیں بلکہ آنیوالی نسلوں کا بھی ہے۔۔۔کیونکہ ظالم اور ظلم ابھی ختم نہیں ہوئے۔
1947ءکو پاکستان اور بھارت کو آزادی تو مل گئی۔۔۔لیکن خون بہہ رہا ہے۔۔۔خون بہنے کا سلسلہ 7 دہائیوں اور کروڑوں ”دُہائیوں“کے بعد بھی نہیں رکا۔۔۔ یہ سلسلہ 1947ءکو ہجرت کیساتھ شروع ہوا جب تقسیم کے نام پر لاکھوں انسانوں سے ان کے گھر بار، عزتیں اور زندگیاں چھینی گئیں، کیا کیا ظلم نہیں ڈھائے گئے جنہیں اب یہاں تفصیل سے بیان کرنا ممکن نہیں۔۔۔۔بس اتنا جان لیجیے کہ اس وقت سے خون بہنے کا سلسلہ شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔۔۔ آج بھی کروڑوں آنکھیں خوں رو رہی ہیں۔۔۔
اس خون کی سرخی سرحد کے اِس پار بھی ہے اور سرحد کے اُس پار بھی۔۔۔
ہمیں بتایا گیا کہ 1947ءمیں بر صغیر پاک و ہند کی تقسیم دنیا کی بڑی انسانی ہجرت کا سبب بنی، برطانیہ کی جانب سے آزادی حاصل ہونے کے نتیجے میں ڈیڑھ کروڑ عوام نے ہجرت کی، مسلمان پاکستان آرہے تھے جبکہ ہندو اور سکھ بھارت جارہے تھے اورکم از کم 10 لاکھ افراد اپنی منزل کی جانب بڑھتے ہوئے موت کے منہ میں چلے گئے، لاکھوں بچھڑ گئے،گھر بار زمین جائیداد سے محروم ہو گئے جو زندہ بچ گئے وہ بدبودار اور گندے کیمپوں میں ر ہنے پر مجبور ہوئے۔ صرف ایک شہر کی مثال دیں تو نئی دہلی میں ہزاروں مسلمانوں نے 16ویں صدی میں بنائے گئے ہمایوں کے مقبرے کی دیوار کے پیچھے پناہ لی اور پاکستان جانے کیلئے محفوظ راستے کیلئے انتظار کیا۔ہجرت کے دوران کتنے مسلمانوں کو شہید کیا گیا اس میں مختلف آراءپیش کی جاتی ہیں۔ فرانسیسی ادیبوں کی شہرت یافتہ کتاب ”فریڈم ایٹ مڈ نائٹ“ میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ مجموعی طور پر 20لاکھ انسانوں نے جان کی قربانی دی لیکن کتنے لاکھ مسلمان شہید ہوئے اس کا ذکر نہیں ملتا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 15 لاکھ مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ مسلمان عورتوں کی آبروریزی کے روح فرسا واقعات الگ ہیں۔
افراتفری اور قیامت کا منظر تھا۔ جس کا جدھر منہ ہوا، ادھر بھاگ نکلا۔ کسی کو راستے کی خبر تھی، نہ ہی کوئی منزل سے آشنا تھا۔ بچوں کو ماو¿ں کی گود میں مارا گیا۔۔ آزمائشوں اور مصیبتوں کے پہاڑ تھے اور نہتے ا نسان۔۔جن کا قصور یہ تھا کہ آزاد اور انصاف کیساتھ رہنا چاہتے تھے۔۔۔
جو مار رہے تھے،ظلم کر رہے تھے۔۔۔ان کے دلوں میں نفرت، ہاتھ میں ہتھیار اور طاقت کا زعم تھا۔۔۔۔جو آج بھی ہے، بس چہرے بدلے ہیں
خواجہ افتخار الدین اورسعادت حسن منٹو سمیت متعدد لکھاریوں نے ہجرت کی جو کہانیاں بیان کیں وہ دل دہلا دیتی ہے۔۔۔لیکن ظالم حکومتوں کے دل آج بھی نہیں دہلتے۔۔۔کسی حاکم کی آنکھ خوں نہ روئی
ہجرت کرنیوالوں میں موجود ہر اس شہید کو سلام جسے بے دردی سے ذبح کیا گیا ان بہنوں بیٹیوں کو سلام جنکی عصمت دری ہوئی ان بزرگوں کو سلام جنہیں ٹھوکریں ماری گئیں جن سے زندگی کا سکون اور اولادیں چھینی گئیں۔
کوئی اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ ہم یہ خون بھری کہانی بھول گئے۔۔۔پا بندیوں اور جنگوں سے ہوتے ہوئے اب ہم اس کہانی کے سبق یا نتیجے تک جا پہنچے ہیں۔۔۔ہم جان گئے ہیں کہ جنگ یا خون خرابہ کسی مسئلے کا حل نہیں۔۔۔
پاکستان اور بھارت آزاد ہو چکے۔۔۔اب عوام کو بھی آزادی دیں، مل جل کر رہنے کی۔۔۔
نجات دیں۔۔۔جنگ سے،دکھوں سے، المیوں سے، نفرت سے
موقع دیں۔۔۔امن کو، ترقی کو، تعلیم کو، روزگار کو
احترام کریں۔۔۔ایک دوسرے کا، انسانیت کا، اقلیتوں کا
ہجرت کی کہانی کا ”سبق“اور ”امن کی خواہش“ لیے ہم سیفما کے روح رواں امتیاز عالم کی قیادت میں چند امن پسند دوستوں کیساتھ واہگہ بارڈرکی زیرو لائن پر 14 اور 15اگست کی رات پہنچے۔واہگہ /اٹاری بارڈر پر امن کی شمعیں روشن کرنے کا آغاز 1996 ءمیں بھارت کے معروف صحافی کلدیپ نئیر نے کیا تھا۔ بھارت کی امن پسند تنظیمیں بھی ہرسال اٹاری بارڈر پر 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب شمعیں روشن کرتی رہی ہیں پاکستان کی طرف سے گزشتہ چند برسوں سے یہ سلسلہ منقطع ہو گیا تھا جسے ایک بار پھرسے بحال کردیا گیا ہے۔ لیکن بھارت نے اس بار اپنی امن پسند تنظیموں کو اٹاری بارڈر کی زیرو لائن تک آنے کی اجازت نہیں دی بلکہ بارڈر کے قریب ”دوستی چوک“ تک ہی محدود رکھا۔
بہرحال پاکستان اور بھارت کے 78 ویں یوم آزادی پر واہگہ/اٹاری بارڈر پر سیفما،پاک بھارت دوستی منچ، انسانی حقوق او رامن دوست تنظیموں نے اپنے اپنے ملک کی حدود میں امن کی شمعیں روشن کیں اور دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی،عوامی، سماجی، تجارتی رابطوں کی فوری بحالی اور ویزا قوانین میں نرمی کا مطالبہ کیا۔”جنگ نہیں امن چاہیے“۔۔۔”پاک، بھارت عوام دوستی زندہ باد“ کے نعرے لگائے اورامن اورمحبت کے گیت گائے۔ اس موقع پر ان لاکھوں لوگوں کی قربانیوں کو یاد کیا گیا جو 1947ءمیں ہجرت کے دوران مارے گئے، اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور اپنے پیاروں سے بچھڑ گئے۔
واہگہ بارڈر پر خطاب کرتے ہوئے امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ پاکستانی اتھیلیٹ ارشد ندیم اوربھارتی اتھلیٹ نیرج چوپڑا کی والدہ کے حالیہ بیانات نے پاکستان اور بھارت کے مابین امن اوردوستی کی ایک نئی امید پیدا کی ہے۔ خطے میں استحکام، معاشی خوشحالی اور امن کے لیے پاکستان اور بھارت کو مل بیٹھ کر تنازعات کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب”پاک بھارت دوستی منچ“ کے زیر اہتمام امرتسر میں خصوصی سیمینار ہوا جس میں امن دوست تنظیموں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔سیمینار میں مقررین نے پاکستان اور بھارت کے درمیان فوری سفارتی و تجارتی تعلقات کی بحالی اور ویزا قوانین میں نرمی پر زور دیا۔بعد ازاں پاک بھارت دوستی منچ اور امن دوست تنظیموں کے درجنوں کارکن سینئر بھارتی صحافی ستنام سنگھ مانک اوررمیش یادو کی قیادت میں رات گئے اٹاری بارڈر پہنچے لیکن انہیں صرف دوستی چوک پر امن کی شمعیں روشن کرنے کی اجازت دی گئی۔
یوں ہم سب نے مل کر سرحد کے آر پار امن کی بات کہہ دی۔۔۔دل کی بات کہہ دی۔۔۔انصاف کی بات کہہ دی۔۔۔ایک دوسرے کی آزادی کااحترام کرنے کی بات کہہ دی۔۔۔ ہم نے کہہ دیا
جنگ نہیں بات کرو۔۔۔ہتھیار نہیں بھوک مٹاؤ
امن کی خواہش کو خوف میں مت بدلو
بات چیت یا مذاکرات کے مطالبے کو کمزوری مت سمجھو
کئی جنگیں لڑ کر دیکھ چکے، مسائل ختم نہیں ہوئے بلکہ اضافہ ہوا
دوستی بس، سمجھوتہ ایکسپریس، تجارت، سفارتی روابط سب بحال کرو
طلباء، مریضوں، یاتریوں،تاجروں، صحافیوں کیلئے ویزا قوانین میں نرمی کرو
حکومتی و ریاستی سطح پر جو ایشوز ہیں انہیں میز پر بیٹھ کر حل کرو
سرحدیں یا آنکھیں بند کر لینے سے کسی ملک یا خطے کا بھلا نہیں ہو گا
یاد رکھو۔۔۔۔طاقت کا سرچشمہ صرف عوام ہیں۔۔۔ بنگلہ دیش میں اس طاقت کی جھلک کو سبق سمجھیں۔۔۔ خطے میں بھوک اور مسائل بے قابو ہوتے جا رہے ہیں، نفرت اس قدر پھیل چکی ہے کہ صرف ایک چنگاڑی تباہی کیلئے کافی ہو گی
بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کے پاس ابھی بھی امن اور ترقی کے راستے میں رکاوٹیں خود ہٹانے کا موقع ہے یہ موقع ضائع نہیں ہونا چاہیے۔۔۔عوام کے دکھوں کا مداوا کیجیے۔۔۔ ہجرت کے زخم ابھی بھرے نہیں۔۔۔رحم اور بھائی چارے سے کام لیجیے
وہ گھرانے جو تقسیم ہوئے یا جن کے رشتے دار، دوست احباب دونوں ملکوں میں بستے ہیں اور کئی مرتبہ آ جا چکے ہیں ان کیلئے سپانسر لیٹرز کی پابندیاں ختم کی جائیں۔
60سال کے بجائے 50 سال کی عمر والے مرد و خواتین کو بارڈر پر ہی ویزے جاری کیے جائیں اور انہیں سال میں ایک سے زیادہ مرتبہ آنے جانے کی اجازت ہونی چاہیے تا کہ وہ اپنے پیاروں کی غمی خوشی میں شریک ہو سکیں۔
یہ مطالبات نہیں بچھڑے ہوئے لاکھوں کروڑوں افراد کا حق ہے جو دیناچاہیے اور دینا ہو گا۔انسانی حقوق کے اداروں کو بھی آگے آنا ہو گا، خطے میں بسنے والے کروڑوں عوام میں روابط کی بحالی کیلئے کام کرنا ہو گا۔
کروڑوں نظریں امن کی منتظر ہیں۔۔۔یہ انتظار اب ختم ہونا چاہیے۔۔۔ ہٹ دھرمی چھوڑ کر جیو اور جینے دو کی پالیسی پر عمل کرنا ہو گا وگرنہ۔۔۔1947ءمیں لاکھوں افراد کا خون اس دھرتی پر بہہ چکا۔۔۔اب کی بار نوبت کروڑوں تک جائے گی (خدا نہ کرے)
اس لیے” جنگ نہیں امن چاہیے“۔۔۔اور یہ نعرہ ہم درجنوں امن پسند ساتھیوں سمیت واہگہ بارڈرکی زیرو لائن پر 14 اور 15اگست کی رات 12بجے بلند کر آئے ہیں۔۔۔ہمیں امید ہے اور یقین بھی کہ امن پسندوں کے نعروں کی گونج دہلی کے ایوانوں تک ضرور پہنچی ہو گی اور وہاں سے جواب بھی آنا چاہیے۔۔۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار ملک بھارت کو فیصلہ کرنا ہو گا۔۔۔اور وہ بھی جمہور کے حق میں،امن کے حق میں
”جنگ نہیں امن“صرف امتیاز عالم اور انکے ساتھیوں کا نہیں بلکہ پورے عالم کا نعرہ ہونا چاہیے۔
اور آخر میں ہجرت کرنیوالوں اور امن پسندوں کی نذر میرا اِک شعر
کبھی اِس پار رہنے دو، کبھی اُس پار رہنے دو
ہمیں آزاد رہنے دو،ہمیں آزاد رہنے دو

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button