اہم خبریںپاکستانتازہ ترین

بلوچستان: شدت پسندوں کے حملوں میں 38 ہلاکتیں، ’صورتحال مانیٹر کر رہے ہیں‘

وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ تحقیقات کے بعد حقائق ثبوت کے ساتھ سامنے لائیں گے۔ ’بلوچستان میں قیام امن کے لیے ہر ممکن اقدام کیا جائے گا۔‘

بلوچستان میں مسلح افراد کی جانب سے صوبے کے مختلف مقامات پر بیک وقت کیے گئے حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 38 ہو گئی۔
پیر کو وزارت داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بروقت کارروائی کر کے 12 شدت پسندوں کو ہلاک کیا ہے۔
وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ تحقیقات کے بعد حقائق ثبوت کے ساتھ سامنے لائیں گے۔ ’بلوچستان میں قیام امن کے لیے ہر ممکن اقدام کیا جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بلوچستان حکومت کے ساتھ رابطے میں ہوں۔ امن کی فضا برقرار رکھنے کے لیے موثر اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ دہشتگردی کے مکمل خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔ بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال کو مستقل بنیادوں پر مانیٹر کیا جارہا ہے۔‘
بلوچستان میں رات گئے حملوں میں مسلح افراد نے ریلوے کے ایک پُل کو بھی دھماکے سے اڑا دیا جبکہ درجن سے زائد گاڑیوں کو آگ لگا کر جلا دیا۔
حکام کے مطابق اتوار اور پیر کی درمیانی شب شدت پسندوں نے بیک وقت موسیٰ خیل، مستونگ، قلات، لسبیلہ، کچھی اور گوادر میں بڑے حملے کیے جن میں لیویز، پولیس تھانوں، سکیورٹی فورسز کے کیمپوں اور سرکاری املاک کو نشانہ بنایا گیا۔
درجنوں حملہ آوروں نے کوئٹہ کراچی، کوئٹہ ڈیرہ غازی خان اور کوئٹہ سکھر شاہراہوں پر بھی حملے کیے۔
انہوں نے سڑکوں کی ناکہ بندی کرکے گاڑیوں کو روک کر تلاشی لی جس کی وجہ سے صوبے کی اہم شاہراہیں رات بھر ٹریفک کے لیے بند رہیں۔
شناخت کے بعد 23 مسافر قتل
حکام کے مطابق بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل کے علاقے راڑہ شم کے مقام پر کوئٹہ کو ڈیرہ غازی خان سے ملانے والی این 70 شاہراہ پر درجنوں مسلح افراد نے مختلف مقامات پر سڑک بند کی اور سندھ اور بلوچستان کے درمیان چلنے والی مسافر بسوں، گاڑیوں اور مال بردار ٹرکوں کو روک کر لوگوں کے شناخت معلوم کی۔
ڈپٹی کمشنر موسیٰ خیل حمید زہری کے مطابق مسلح افراد نے لوگوں کی شناخت معلوم کرنے کے بعد نیچے اتارا اور پھر انہیں گولیاں مار کر قتل کر دیا۔
ڈائریکٹر جنرل لیویز فورس بلوچستان نصیب اللہ کاکڑ نے اردو نیوز کو بتایا کہ شدت پسندوں نے موسیٰ خیل میں 23 مسافروں کو قتل کیا گیا ہے جن میں زیادہ تر کا تعلق پنجاب سے بتایا جاتا ہے۔
جس جگہ واقعہ پیش آیا وہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان سے متصل بلوچستان کے ضلع بارکھان اور موسیٰ خیل کے درمیان واقع ہے۔
رات کو مسافروں کے اغوا کے واقعہ کی اطلاع ملنے پر قریبی اضلاع سے بھی لیویز، پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری طلب کی گئی۔
لیویز کے مطابق رات بھر فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا اور صبح روشنی ہونے سے پہلے حملہ آور پہاڑوں کی طرف فرار ہو گئے۔ سکیورٹی فورسز موقع پر پہنچیں تو انہیں سڑک کے پاس لاشیں ملیں۔
موقع پر موجود لیویز عہدیدار اکبر خان نے بتایا کہ لاشیں راڑہ شم پولیس تھانے سے کچھ فاصلے پر سڑک کے پاس سے ملی ہیں۔ انہیں سر اور جسم کے مختلف سروں میں گولیاں ماری گئی تھیں۔ زیادہ تر جوان اور کچھ بڑی عمر کے افراد بھی شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایک شخص زخمی حالت میں بھی ملا جنہیں ٹانگوں میں گولیاں ماری گئی تھیں انہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔
خواتین کو مسلح افراد نے بس میں ہی چھوڑ دیا
اکبر خان نے بتایا کہ ’نشانہ بننے والے میں سے کچھ کے ہمراہ ان کی خواتین بھی تھیں جنہیں مسلح افراد نے بس میں ہی چھوڑ دیا تھا۔ ان کی خواتین رات بھر سڑک کنارے بیٹھ کر اپنے پیاروں کی واپسی کا انتظار کرتے رہے۔‘
مرنے والوں میں پنجاب کے شہر لاہور، ملتان، وہاڑی، لیہ، ساہیوال، سرگودھا، فیصل آباد کے رہائشی شامل ہیں۔
اکبر خان نے بتایا کہ مسلح افراد نے پک اپ اور مال بردار گاڑیوں سمیت دس سے زائد گاڑیوں کو بھی جلا کر تباہ کر دیا ہے۔
دوسری جانب قلات اور مستونگ میں بھی مسلح افراد نے اسی طرز کے حملے کیے۔ قلات میں درجنوں مسلح افراد نے کوئٹہ کراچی شاہراہ کو ٹول پلازہ سے لے کر مہلبی تک کئی مقامات پر بند کیا۔ اس دوران وہاں سے گزرنے والی اسسٹنٹ کمشنر اور لیویز کی گاڑی کو نشانہ بنایا۔
مسلح افراد نے دو ہوٹلوں اور ایک سرکاری ہسپتال پر قبضہ کیا۔ قلات پولیس اور لیویز کنٹرول کے مطابق صبح روشنی ہونے کے بعد مسلح حملہ آور مورچے خالے کر کے فرار ہو گئے۔ علاقے کی کلیئرنس کے دوران 9 افراد کی لاشیں ملیں۔
ایس ایس پی قلات کے دفتر کے مطابق مرنے والوں میں چار لیویز اور ایک پولیس اہلکار، ایک قبائلی رہنما ملک ازبر بھی شامل ہیں۔
فائرنگ کے نتیجے میں اسسٹنٹ کمشنر قلات آفتاب لاسی سمیت پانچ افراد زخمی بھی ہوئے۔
ادھر قلات اور کوئٹہ سے متصل ضلع مستونگ کے علاقے کھڈ کوچہ میں بھی 50 سے زائد مسلح افراد نے لیویز تھانہ پر حملہ کیا اور اس پر قبضہ کر لیا۔ مسلح افراد نے لیویز اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا اور تھانے کو آگ لگا کر نقصان پہنچایا۔
لیویز کنٹرول کے مطابق مسلح افراد نے پانچ گاڑیوں کو نذر آتش کیا۔ حملہ آوروں نے مسافر بسوں سمیت گاڑیوں کو روک کر تلاشی بھی لی اور لوگوں کی شناخت معلوم کی۔
لیویز کے مطابق رات بھر سکیورٹی فورسز اور مسلح افراد کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ چلتا رہا۔ صبح حملہ آور پہاڑوں کی طرف فرار ہو گئے تاہم اب تک کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں۔
مستونگ سے متصل بلوچستان کے ضلع بولان میں بھی درجنوں شدت پسند کوئٹہ کو سکھر سے ملانے والی قومی شاہراہ پر نظر آئے۔ مسلح افراد نے سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹوں اور ریلوے کی املاک پر حملے کیے۔ مسافر گاڑیوں کی تلاشی لی۔
ایس ایس پی کچھی کیپٹن ریٹائرڈ دوست محمد بگٹی نے اردو نیوز کو بتایا کہ کولپور کے قریب چھ لاشیں ملی ہیں جنہیں گولیاں مار کر قتل کیا گیا ہے تاہم انہوں نے مقتولین کی شناخت سے متعلق کچھ نہیں بتایا۔
ڈائریکٹر جنرل لیویز بلوچستان نصیب اللہ کاکڑ کے مطابق مسلح افراد نے دوزان کے مقام پر ریلوے پل کو بھی دھماکے سے اڑا دیا۔
ریلوے کنٹرول کے مطابق پل تباہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان کا سندھ اور پنجاب سے ریل کے ذریعے رابطہ منقطع ہو گیا۔ کوئٹہ سے راولپنڈی اور کراچی آنے جانے والی ٹرینوں کو روک دیا گیا۔
ادھر لسبیلہ کے علاقے بیلہ میں سکیورٹی فورسز کے کیمپ پر بارود سے بھری گاڑی ٹکرانے کے بعد مسلح حملہ آور نے اندر داخل ہو گئے جس کے بعد سکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کی۔ رات بھر کیمپ سے دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں آتی رہی۔
اس حملے میں سکیورٹی فورسز کے متعدد اہلکار زخمی ہو گئے۔ جوابی کارروائی میں دو حملہ آوروں کے مارے جانے کی اطلاع ہے۔
ایس ایس پی لسبیلہ نوید عالم نے پیر کی علی الصبح اردو نیوز کو بتایا تھا کہ کلیئرنس آپریشن جاری ہے تاہم انہوں نے مزید تفصیل نہیں بتائی۔
اس سے پہلے مسلح افراد نے گوادر کے علاقے جیونی میں پولیس تھانے پر حملہ کیا اور اس کے باہر دو پولیس کی گاڑیوں سمیت تین گاڑیوں کو آگ لگا کر تباہ کر دیا۔ مسلح افراد پولیس اہلکاروں کا اسلحہ بھی چھین کر فرار ہو گئے۔
کوئٹہ میں بھی شالکوٹ تھانہ کی حدود میں اتوار کی رات کو دھماکہ ہوا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
ڈی جی لیویز کے مطابق بدامنی کے واقعات کی وجہ سے رات کو کوئٹہ کراچی، کوئٹہ سکھر، کوئٹہ ڈیرہ غازی خان اور کوئٹہ تفتان سمیت مختلف شاہراہوں کو مختلف مقامات پر بند رکھا گیا تھا تاہم اب تمام شاہراہیں ٹریفک کے لیے بحال ہیں۔
ان حملوں کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی ہے۔ رات کو تنظیم کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں صوبے کی اہم شاہراہوں کا کنٹرول سنبھالنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
لسبیلہ میں سکیورٹی فورسز کے کیمپ پر حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی ( بی ایل اے) کے خودکش سکواڈ مجید بریگیڈ نے قبول کی ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button