اسلام آباد (نمائندہ وائس آف جرمنی):ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستانی حکام سے ملک بھر میں انٹرنیٹ کی سست روی، مانیٹرنگ اور سرویلنس ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے مکمل شفافیت فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق کاروبار میں خلل پیدا ہونے کی وجہ سے اس مسئلے نے لاکھوں پاکستانی صارفین کو متأثر کیا ہے اور ملک بھر میں شکایات کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ حکام نے کہا ہے کہ ایک ناقص زیرِ آب کیبل کی وجہ سے انٹرنیٹ کی رفتار کم ہوئی ہے۔
ملک کی تقریباً نصف آبادی کو مقبول واٹس ایپ سمیت سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال کرنے اور ان تک رسائی میں مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستان میں 110 ملین انٹرنیٹ صارفین ہیں اور اس کی 40 فیصد تک سست رفتار سے ملک کی 241 ملین آبادی کا تقریباً نصف متأثر ہوا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ٹیکنالوجسٹ جیور وین برگن نے پیر کو ایک بیان میں کہا، "ایمنسٹی انٹرنیشنل پاکستانی حکام پر زور دیتا ہے کہ وہ انٹرنیٹ کی ان رکاوٹوں کی وجہ کے بارے میں شفافیت اختیار کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ نگرانی اور مشاہدے کا ایسا نظام نافذ نہ کریں جو غیر ضروری، غیر متناسب اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے خلاف ہو۔”
انہوں نے کہا کہ نگران اور مشاہداتی ٹیکنالوجیز جو مواد کو بلاک، انٹرنیٹ کی رفتار کو کم اور کنٹرول کر سکتی ہوں، ان کے استعمال کے حوالے سے پاکستانی حکام کی "غیر شفافیت” ایک "خطرناک تشویش کی بات” ہے۔
برگن نے مزید کہا، "بار بار ایسی ٹیکنالوجیز بشمول فائر وال کا استعمال انسانی حقوق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ نفوذ پذیر ذرائع آن لائن آزادئ اظہار اور معلومات تک رسائی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ عوام کی معلومات تک رسائی کے حق، شہریوں کے اظہارِ خیال، ای کامرس اور ڈیجیٹل معیشت سے استفادے کے لیے انٹرنیٹ ضروری ہے۔”
پاکستان کی وزیر برائے آئی ٹی شزہ فاطمہ خواجہ نے بارہا ان اطلاعات کو مسترد کیا ہے کہ حکومت انٹرنیٹ کو سست یا بند کرنے کی ذمہ دار ہے۔ اس کی بجائے انہوں نے فروری سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پابندی کے دوران ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) کے وسیع استعمال کو اس کی وجہ قرار دیا۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے چیئرمین حفیظ الرحمٰن نے ایک خراب زیرِ آب کیبل کو انٹرنیٹ کی سست روی کی وجہ قرار دیا ہے جسے کل منگل تک درست کر دیا جائے گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں ملک بھر میں انٹرنیٹ کی بندش کے خلاف درخواست دائر کی گئی ہے جس میں حکومت اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی سے آج پیر تک جواب طلب کیا گیا ہے۔