کالمزناصف اعوان

حیات ہو جیسے خزاں کا موسم ؟

سرکاری محکموں میں بھی ڈاؤن سائزنگ ہو رہی ہے کہا جا رہا ہے کہ وہ خسارے میں ہیں اس لئے انہیں نجی تحویل میں دیا جا رہا ہے

جو غذا ہم لوگ استعمال کر رہے ہیں اس میں غذائیت بہت کم ہوتی ہے یعنی ہمارے جسم کو جتنے حرارے چاہیں وہ پورے نہیں مل رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری اجتماعی صحت گرتی چلی جا رہی ہے ؟ اس طرح قومی کارکردگی بھی متاثر ہو رہی ہے ۔اب ذرا دودھ ہی کو لیجئیے اس کے دام تو اصلی کے وصول کیے جاتے ہیں مگر اس میں ملاوٹ کی گئی ہوتی ہے ایسے ایسے کیمیکلز اور سفید رنگ کے سفوف اس میں شامل کیے گئے ہوتے ہیں کہ جن سے جگر معدہ اور گردے خراب ہو جاتے ہیں اور اس کا عام آدمی کو بالکل پتا نہیں چلتا ویسے بھی اسے اصل دودھ کی اسے پہچان نہیں رہی لہذا جو دودھ ملتا ہے وہ اسی پر اکتفا کرتا ہے ۔ آٹا کو لے لیں جو بازار میں فروخت ہوتا ہے اس میں غذائیت برائے نام ہوتی ہے۔ اب جب کوئی اسے کھائے گا تو اس کے جسم میں توانائی کہاں سے آئے گی اور وہ زندہ رہنے کے لئے بہتر طور سے دوڑ دھوپ کیسے کرے گا ۔ یہاں ہم یہ بھی عرض کر دیں کہ غریب مزدور طبقے کو ایک طرف غذا پوری نہیں مل رہی تو دوسری جانب اسے روزگار کا مسئلہ بھی درپیش ہے( روزگار ہو تو کم ازکم اس سے وہ اپنا پیٹ تو بھر ہی لیتا ہے ) کیونکہ ملک میں اب ذرائع روزگار و پیداوار محدود ہوتے جارہے ہیں اور یہ سلسلہ گزشتہ دس پندرہ برس سے جاری ہے سرکاری محکموں میں بھی ڈاؤن سائزنگ ہو رہی ہے کہا جا رہا ہے کہ وہ خسارے میں ہیں اس لئے انہیں نجی تحویل میں دیا جا رہا ہے جبکہ وہ خسارے میں کیوں گئے یہ سوچنا چاہیے ۔ بہتر یہی ہے کہ ان میں موجود خرابیوں کو تلاش کیا جائے اور انہیں دور کرنے کی کوشش کی جائے مگر آسان راستہ اختیار کیا جا رہا ہے کہ انہیں فروخت کر دیا جائے مسئلہ تب بھی حل نہیں ہو گا کیونکہ نجی ادارے بھی تو دہائی دے رہے ہیں کہ انہیں خسارے کا سامنا ہے لہذا جو وجوہات ہیں انہیں ختم کرنے کی سبیل نکالی جائے حل ہماری رائے میں یہ ہے کہ موجودہ نظام کو تبدیل کیا جائے جس پر توجہ شاید کسی کی نہیں بات ہو رہی تھی غیر معیاری و ناقص غذا کی۔کوئی چیز بھی خالص دستیاب نہیں مگر یہ پہلو بھی قابل غور رہے کہ متعلقہ محکمے جو کھانے پینے کی اشیا کو بھر پور بنانے کے لئے وجود میں لائے گئے ہیں وہ کیا کر رہے ہیں؟ انہیں اپنے فرائض کا علم نہیں دروغ بر گردن راوی وہ تو خود اس میں ملوث پائے گئے ہیں کہ وہ ماہانہ لے کر خاموش رہتے ہیں کبھی کارروائی ڈالنے کے لئے حرکت میں بھی آجاتے ہیں ۔ہم جس علاقہ میں رہتے ہیں وہاں سے دودھ اندرون شہر سپلائی کیا جاتا ہے مگر اس میں سفید سفوف کی آمیزش دھڑلے سے کی جاتی ہے دودھ فروشوں نے اپنے گھروں میں اس کا وافر سٹاک کیا ہوتا ہے۔ یہ چیز ظاہر کرتی ہے کہ کچھ لوگ پلک جھپکتے میں امیر بننا چاہتے ہیں اور انہیں یہ احساس نہیں کہ لوگوں کو وہ جو کچھ کھلا پلا رہے ہیں ان کی زندگیوں کو برباد کر رہا ہے۔
اب آتے ہیں ہوا کی طرف ‘ شہر ہوں دیہات ہوں یا قصبات سب میں آلودگی در آئی ہے کیونکہ ہر طرح کی ٹریفک کا ایک اژدھام نظر آتا ہے موٹر سائیکلیں سائیکلوں کی جگہ استعمال ہونے لگی ہیں ۔چنگچیاں جن کی غالب اکثریت دھواں چھوڑتی ہے بعض چنگ چی ” کوچوانوں“ نے تو سائلنسر بھی نہیں لگوائے ہوتے‘ یوں وہ آلودگی میں اضافہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ بڑے شہروں میں ایسی ملیں بھی ہیں کہ جن میں کوئلہ کے ساتھ ربڑ کی کترنیں بھی ایندھن کے طور پے استعمال کی جاتی ہیں باوجود اس کے کہ انہیں آبادیوں سے دور صنعتی زونوں میں منتقل کیا جا رہا ہے آلودگی کا سبب بن رہی ہیں۔ اب ایک نیا مسئلہ بھی پیدا ہوا ہے کہ کسانوں نے فصلوں کے جو مڈھ ہوتے ہیں انہیں جلانا شروع کر دیا ہے بھٹے بھی زہریلا دھواں چھوڑتے ہیں جو کئی کئی میل تک پھیلتا چلا جاتا ہے یہ سب عوامل مل کر انسانی صحت کو برباد کر رہے ہیں مگر مجال ہے اوپری سطح پر کوئی غور وفکر ہو ۔محکمہ ماحولیات کے بڑے افسر پُر آسائش دفتروں میں بیٹھے اپنی قابلیت کے مظاہرے کرنے میں مصروف رہتے ہیں عملاً مگر کچھ نہیں ہو پا رہا وگرنہ کوئی ایسی بات نہیں کہ ماحول کو خوشگوار نہ بنایا جا سکے ۔ اس کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کو بھی رواج دیا جائے بجلی سے چلنے والی ٹرینیں چلائی جائیں ۔ اگر محکموں نے عوام کے لئے آسانیاں نہیں پیدا کرنی تو انہیں بند کر دینا چاہیے ؟ ان کی جگہ تھانوں کو ان تمام خرابیوں کو ختم کرنے کے اختیارات دے دئیے جائیں وہ تھوڑی بہت نرمی لازمی کریں گے مگر وہ انہیں قابو میں بھی کر سکتے ہیں پھر میڈیا کی رپورٹوں کو بھی اعلیٰ سرکاری سطح پر دیکھا جائے ۔
تیسرا مسئلہ پانی کا ہے جو زیادہ تر پینے کے قابل نہیں رہا آلودہ ہو چکا ہے بعض علاقوں میں یہ صاف بھی مل جاتا ہے مگر جس بھاری مقدار میں فصلوں پر زہروں کا چھڑکاؤ کیا جا رہا ہے اور کھادوں کا استعمال ہو رہا ہے بہت جلد وہ بھی آلودہ ہو جائے گا پھر جو کھیت جس پانی سے سیراب ہو رہے ہیں اس میں ملوں کارخانوں اور گھریلو پانی بھی شامل ہوتا ہے اور وہ بالکل صاف نہیں ہوتا ۔اگرچہ سرکاری سطح پر اور سماجی خدمت کی تنظیمیں فلٹریشن پلانٹ لگا رہی ہیں تاکہ لوگوں کو صاف پانی میسر آسکے اور انہیں موذی امراض میں مبتلا ہونے سے بچایا جا سکے کیونکہ آلودہ پانی سے ہیپاٹائٹس کا رجحان کافی ہے معدے کا مرض تو پر تیسرے شخص کو لاحق ہے غریب لوگ تو ہر طرح سے پریشان ہیں کسی کو روزگار نہیں ملتا کسی کو غذا پوری نہیں ملتی کسی کو فضا صاف نہیں ملتی اور کسی کو پانی پینے کے لئے آلودگی سے پاک نہیں ملتا بندہ کرے تو کیا کرے جینا مشکل ہو چکا ہے امراء نے تو اپنا بندو بست کر رکھا ہے مگر غریب طبقے کو چین نہیں ۔
جب وہ بیمار ہوتا ہے تو دواؤں کی کمیابی و گرانی اسے گھما کر رکھ دیتی ہے بر سبیل تذکرہ بجلی کے بلوں نے بھی اسے بے حال کر دیا ہے اس صورت حال کے پیش نظر وہ کیا توانا ہوگا تندرستی اس سے کوسوں دور رہے گی اور کیا قومی کاکردگی کو بہتر بنائے گا لہذا روشن مستقبل کے لئے ضروری ہے کہ متعلقین ‘ غذا ہوا اور پانی کو مضر اجزاء سے پاک رکھنے کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کریں اگر یورپ ان چیزوں بارے سخت قوانین بنا کر ایک اعلیٰ معیار قائم کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ یہ ظلم نہیں کہ جدید دور میں بھی لوگ خالص اشیاء سے محروم ہیں اور محکمے مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کرتے ہوئے نظر آئیں اور اگر کوئی یہ کہے کہ وہ اپنا فرض کیوں نہیں ادا کر رہے تو وہ مصلحتوں اور مجبوریوں کا جواز سامنے پیش کر دیں ان سب کو عوام کی خدمت کے لئے متحرک ہونا ہو گا نہیں تو جہاں دوسرے ادارے نجی تحویل میں دئیے جا رہے ہیں وہاں انہیں بھی نجی تحویل میں دے دیا جائے پھر دیکھیں گے کہ یہ کیسے دفتروں سے باہر نہیں نکلتے اور اپنی ڈیوٹی پوری نہیں کرتے !

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button