26 اگست کو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 60 ہو گئی ہے جن میں 14 سیکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں
یہ حملے بلوچستان کے مقبول سیاسی رہنما نواب اکبر بگٹی کی 18ویں برسی کے موقع پر کیے گئے اور اس آپریشن کو کالعدم تنظیم بی ایل اے کی جانب سے ’آپریشن ہیروف‘ کا نام دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجماں اسٹیفن دوجارک نے کہا ہےکہ سیکرٹری جنرل بلوچستان میں ہونے والے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سیکرٹری جنرل نے زور دیا ہے کہ شہریوں کے خلاف حملے ناقابل قبول ہیں۔ وہ لواحقین سے اپنی دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تحقیقات کرائے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ذمہ داروں کا محاسبہ کیا جائے۔
کوئٹہ میں ہمارے نامہ نگار کے مطابق بلوچستان کے مختلف اضلاع میں بم دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات میں کم از کم 60 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔
یہ حملے بلوچستان کے مقبول سیاسی رہنما نواب اکبر بگٹی کی 18ویں برسی کے موقع پر کیے گئے اور اس آپریشن کو کالعدم تنظیم بی ایل اے کی جانب سے ’آپریشن ہیروف‘ کا نام دیا گیا ہے۔
بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ نے سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ بی ایل اے کے فدائی یونٹ مجید بریگیڈ نے لسبیلہ میں فورسز کے کیمپ پر حملہ کیا۔
بلوچستان کے پنجاب سے متصل علاقے موسیٰ خیل میں مسلح افراد نے 23 مسافروں کو بسوں سے اُتار کر شناخت کے بعد قتل کر دیا۔
ضلع موسیٰ خیل کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) ایوب اچکزئی نے شہریوں کی ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس واقعے میں 23 افراد ہلاک جب کہ دو زخمی ہوئے ہیں۔
خیبر پختونخوا اور پنجاب کی سرحد پر واقع بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل کے علاقے راڑہ شم میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب مسلح افراد نے قومی شاہراہ کو ناکہ لگا کر بند کر دیا۔ یہ شاہراہ بلوچستان کو پنجاب سے ملاتی ہے۔
مقامی افراد نے اطلاع دی ہے کہ اس مقام پر مسلح افراد نے دو درجن سے زائد کوئلے سے لدے ٹرکوں اور دیگر گاڑیوں کو نذرِ آتش بھی کیا ہے۔
ہلاک ہونے والوں کا تعلق پنجاب کے ضلعوں وہاڑی اور فیصل آباد سے تھا۔ انکی میتوں کو پنجاب بھیج دیا گیا ہے۔
دو سے تین مقامات پر حملے کیے گئے: صوبائی حکومت
ابتدا میں بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہ رند نے کہا ہے کہ دو سے تین مقامات پر حملے کیے گئے ہیں۔ دو مقامات پر سیکیورٹی اداروں نے حملوں کو ناکام بھی بنایا ہے۔
ان کے بقول ایسے حملوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔ تنظیم کوئی بھی ہو اگر موسیٰ خیل جیسی کارروائیاں کرتی ہے تو وہ دہشت گرد ہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جس صورتِ حال کا سامنا ہے اس میں سیاسی اسٹیک ہولڈرز سمیت سب کو مل کر کوشش کرنی ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ موسیٰ خیل کا علاقہ ڈی جی خان سے منسلک ہے۔ ایسے پہاڑی علاقوں میں شاہراہیں قومی شاہراہیں نہیں ہوتیں تو یہاں سیکیورٹی کم ہوتی ہے۔ عسکریت پسندوں کا موسیٰ خیل میں حملہ سیکیورٹی اداروں اور صوبائی حکومت کی کوتاہی ہے کہ رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کارروائی کی گئی۔
صدر آصف علی زرداری اور وزیرِ اعظم شہباز شریف نے موسیٰ خیل واقعے کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے بیان میں کہا کہ معصوم شہریوں کے قتل میں ملوث دہشت گردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا ہو گا۔ ملک میں کسی بھی قسم کی دہشت گردی قبول نہیں۔
وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے ایک بیان میں موسی خیل میں 23 افراد کے قتل کے واقعے کی مذمت کی ہے۔
انہوں نےکہا کہ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار عبرت ناک انجام سے بچ نہیں پائیں گے۔