جہاد سے فساد تک کے پچاس سال ……حیدر جاوید سید
حالانکہ برسات کا پچھلا موسم تو ایسا خوفناک تھا کہ وہ بلوچستان کے بہت سارے ڈیموں کو بہالے گیا (یاد رہے کہ موجودہ موسم برسات کی بات نہیں ہے)
اے این پی کے مرکزی صدر سینیٹر ایمل ولی خان درست کہتے ہیں کہ ’’پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ ذہنی طور پر دہشت گرد ہے۔ جس چیز کو آج ہم فساد کہہ رہے ہیں ریاست پاکستان نے اسے بطور جہاد پروموٹ کیا” ۔
ہماری دانست میں ہمیں اب یہ دیکھنا ہوگا کہ ریاست فساد کہہ کسے رہی ہے۔ اس وقت ملک میں تین طرح کی کالعدم مسلح تنظیموں کی سرگرمیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں اولاٰ کالعدم ٹی ٹی پی اینڈ داعش وغیرہ۔ ثانیاً کالعدم لشکر جھنگوی اور اس کی ہم خیال اور مخالف تنظیمیں۔ ثالثاً بلوچستان میں سرگرم عمل بی ایل اے، بی ایل ایف یا ان دونوں کے ذیلی گروپس۔
یہاں ہمیں رمضان مینگل اینڈ شفیق مینگل کے اس مسلح امن لشکر کو واک اوور ہرگز نہیں دینا چاہیے۔ اس نام نہاد امن لشکر کے بڑوں اور سہولت کار دونوں کے چہرے پر بے گناہوں کے خون کے نشانات برسات کے متعدد موسم گزرجانے کے بعد بھی نہیں دھل پائے۔
حالانکہ برسات کا پچھلا موسم تو ایسا خوفناک تھا کہ وہ بلوچستان کے بہت سارے ڈیموں کو بہالے گیا (یاد رہے کہ موجودہ موسم برسات کی بات نہیں ہے)
اسی طرح سندھ میں آزاد سندھو دیش کی فہم سے متاثر ایک دو تنظیموں کے نام اور کام گاہے بگاہے میڈیا کی زینت بنتے ہیں۔ سندھ لبریشن آرمی یا آزاد سندھو دیش بریگیڈ، یا پھر جسقم (جئے سندھ قومی محاذ) کا ایک دھڑا بشیر قریشی والا بھی کالعدم تنظیموں میں شامل ہے۔
خیبر پختونخوا میں پہلے اے این پی اور بعض چھوٹی جماعتوں کی صورت میں "غدار” ہوا کرتے تھے ریاست نے جہاد پروری کے ذریعے ان غداروں کا تقریباً خاتمہ کردیا ان کی پشتون ولی کے مقابلہ میں مسلم پشتون ولی متعارف کروائی اسی مسلم پشتون ولی کی بنیاد اور خفیہ ایجنسیوں کی جیپوں پر سوار ملا ملٹری الائنس (ایم ایم اے) نے 2002ء کے جرنیلی جمہوریت برانڈ الیکشن میں ڈیڑھ صوبہ (خیبر پختونخواہ اور نصف بلوچستان) فتح کیا ایک جگہ اپنی حکومت بنائی دوسری جگہ مخلوط حکومت بنالی ۔
جرنیلی جمہوریت کی آئینی ترمیم (وردی میں صدر اور دیگر معاملات) پر تعاون کر کے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا منصب بھی حاصل کیا۔
معاف کیجئے گا تمہید طویل ہورہی ہے لیکن چند سطور مزید برداشت کیجئے۔
بلوچستان میں بی ایل اے، بی ایل ایف یا دونوں کے ہم خیال مگر الگ گروپوں کی مزاحمت یا یوں کہہ لیجئے کہ حق خودمختاری کے یہ اولین دعویدار نہیں۔
ہم چاہیں بھی تو اسے قلات پر 1948 میں ہوئی فوج کشی کے معاملے سے پیدا ہوئی ناراضگی سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے اس فوج کشی سے سخت مرحلہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں آیا جب قرآن کو ضامن و گواہ بناکر نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کو پہاڑوں سے اتارا گیا اور پھر وعدہ خلافی کرتے ہوئے گرفتار کرکے مقدمہ چلاکر سزائے موت سنائی گئی۔ نوروز خان زائدالعمر ہونے کی وجہ سے پھانسی نہ چڑھائے گئے باقی ساتھیوں کو پھانسی چڑھادیا گیا۔
اس سے اگلا پڑائو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں نیپ اور جے یو آئی کی بلوچستان میں قائم مخلوط حکومت کی تحلیل کا فیصلہ ہے اس فیصلے کے بعد صوبہ سرحد میں نیپ اور جے یو آئی کی مخلطو حکومت مستعفی ہوگئی۔
اسی دور (بھٹو دور) میں ایک نئی بلوچ مسلح مزاحمت شروع ہوئی۔ عراقی اسلحہ کی برآمدگی کا ڈرامہ اسٹیج کیا گیا نواب اکبر بگٹی کا ذوالفقار علی بھٹو کاساتھ دے کر بلوچستان کا گورنر بن جانا بھی اسی دور میں ہوا۔
قلات پر فوج کشی سے لے کر اب چند دن قبل موسیٰ خیل ضلع کی حدود میں بی ایل اے کی جانب سے روڈ جام کرکے شناختی کارڈ دیکھ کر 23 افراد کو قتل کرنا اور ٹرکوں و پیک اپ ڈالوں کو آگ لگادینے کے واقعہ کے درمیان عدم مزاحمت کا بھی ایک دور ہے جو جنرل ضیاء الحق کے دور سے شروع ہوا اور غالباً سال 2000ء تک چلا۔
ایمل ولی خان کی جو بات کالم کی ابتدائی سطور میں عرض کی وہ کچھ یوں تھی ’’پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ ذہنی طور پر دہشت گرد ہے جس چیز کو آج ہم فساد کہہ رہے ہیں ریاست پاکستان نے اسے جہاد کے نام پر پروموٹ کیا‘‘۔
اولاٰ تو یہ درست ہوگاکہ بلوچستان کی صورتحال کو (قلات لشکر کشی سے اب تک کے معاملات) اس سے الگ کرکے دیکھنا سمجھنا ہوگا۔
البتہ اس پر بات کرنا قابل گردن زدنی ہرگز نہیں۔ نہ ہی ’’سستے نام نہاد‘‘ کی پھبتیوں کو خاطر میں لانے کی ضرورت ہے۔
ریاست نے غیر ریاستی ایکٹروں کو مجاہدین جہاد کے طور پر ہمارے ہاں افغان انقلاب ثور کے بعد افغانستان میں لڑی گئی سوویت امریکہ جنگ کے دوران متعارف کروایا لیکن اسی عرصے میں ریاست نے چند فرقہ وارانہ اور لسانی تنظیموں کے قیام کے لئے چھتریاں بھی مہیا کیں تاکہ جمہوریت پسند جماعتوں کا زور توڑا جاسکے۔
مجاہدین جہاد ، اثاثے، دہشت گرد، فسادی اور اب خوارج، پانچ مرحلوں کا یہ سفر لگ بھگ 45 سے 46 برسوں میں طے ہوا یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہماری ریاست نے (ویسے یہ مالکوں کی ریاست ہے ہماری اور آپ کی نہیں) پچھلی تقریباً نصف صدی میں جتنے تجربے کئے سارے عظیم الشان انداز میں نہ صرف ناکام ہوئے بلکہ ہر تجربے سے تخلیق ہوئی ’’مخلوق‘‘ بعدازاں خالق کے گلے پڑی اس کے گریبان و دستاروں سے کھیلی جیسا کہ ان دنوں ففتھ جنریشن وار والی پلاٹون خالق کے گریبان سے الجھی ہوئی ہے۔
یہ درست ہے کہ ملکی آبادی کا بڑا حصہ ذہنی طور پر دہشت گرد ہے۔
اس کی ایک وجہ زمینی حقائق اور خطے یا یوں کہہ لیجئے حقیقی تاریخ سے محروم وہ تعلیمی نصاب ہے جس میں حملہ آور قاتل لٹیرے ہمارے ہیرو ہیں اور مقامی مزاحمت کار زمین زادے ڈاکو غدار، اسلام دشمن، ناشکرے،
دوسری وجہ بے ہنگم سماجی بڑھاوا ہے۔ تیسری وجہ فرقہ وارانہ کاروبار کی کھلی چھٹی۔ چوتھی وجہ قرارداد مقاصد۔ پانچویں وجہ ریاست کا ایک مذہب اختیار کرلینا ہے ظاہر ہے جب مذہب اپنالے گی ریاست تو پھر اس کا کوئی نہ کوئی عقیدہ بھی ضرور ہوگا۔
افغانستان میں لڑی گئی سوویت امریکہ جنگ سے قبل ریاست کا عقیدہ غیراعلانیہ تھا لیکن اس جنگ کی بدولت ریاستی عقیدے کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا اور آج تک بول رہا ہے
اس کی چھٹی وجہ میں درست تم یکسر غلط اور زندیق ہو۔ ساتویں وجہ جنرل ضیاء دور کے بعض قوانین ہیں جنہیں آٹھویں ترمیم کے ذریعے داخل دستور کردیا گیا۔
چند وجوہات اور بھی ہیں مگر کالم کے دامن میں زیادہ گنجائش نہیں ہوتی۔
ہم ان ساری وجوہات سے بچ کر ایک اُجلا سماج اور نظام قائم کرسکتے تھے اگر فکری سیاسی اور رہاستی طور پر سیکولر نظام کی طرف بڑھتے اور اسے اپناتے ایسا اس لئے نہیں ہوسکا کہ 1947 ء کا بٹوارہ مذہبی نفرت کے بڑھاوے پر ہوا تھا۔
ابتدا بلکہ ابتدا سے پانچ ماہ قبل یہ حقیقت سامنے آگئی تھی کہ متحدہ ہندوستان کے بٹوارے سے بننے والا نیا ملک (پاکستان) لادین سوویت یونین کے خلاف ’’اہل کتاب کا فکری اتحادی ہوگا‘‘ قرارداد مقاصد درحقیقت نفرت پر ہوئے بٹوارے اور لادین قوتوں کے خلاف اسلام کے قلعہ کی اسنادی شناخت تھی ۔
سات آٹھ خرابیوں اور دیگر معاملات کے باوجود حالات اس وقت تک قدرے بہتررہے جب تک ریاست نے اجتہاد برائے کفر و اسلام کا ہتھیار خود سنبھالنے کے ساتھ اس کا ’’اِذن عام‘‘ نہیں د ے دیا۔ ٹھنڈے دل سے غور کیجئے کیوں اس ملک میں 76 برسوں میں انسان سازی کا ایک ادارہ نہیں بن پایا اور کیسے ہماری یونیورسٹیاں دولے شاہی چوہے اگلنے لگیں؟
اس سوال کے جواب میں بدقسمتی کی پوری تاریخ ہے۔ ابھی کل کی بات ہے جب ریاست نے ’’ذہن سازی و تعمیر نو کے جذبہ سے دہشت گردوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے صدارتی فرمان کے ذریعے103 سے زائد سفاک دہشت گردوں کو کابل مذاکرات کے عوض رہا کیا تھا یہی نہیں بلکہ اس وقت کی حکومت نے ہزاروں جنگجوئوں کو افغانستان سے لاکر بسانے کی پالیسی اپنائی۔
سوال یہ ہے کہ ہم اس غیرذمہ دارانہ طرزعمل کے ساتھ دہشت گردی پر رونے کے باوجود دہشت گردوں کو محبوب رکھنے والی سوچ سے کیسے نجات حاصل کرسکتے ہیں؟
سادہ اور دو لفظی جواب یہ ہے کہ ریاست غیرمذہبی ہو، مذہب و عقیدہ فراد کا نجی معاملہ۔ نظام ہائے حکومت سیکولر بنیادوں پر استوار ہو اور مقامی وسائل پر مقامی لوگوں کا حق فائق تسلیم کیا جائے۔
چند باتیں اور بھی ہیں وہ پھر کبھی سہی۔