حیدر جاوید سیدکالمز

کیا پنجاب کی برہمی درست ہے؟…..حیدر جاوید سید

فیلڈ مارشل ایوب خان اور کمانڈر انچیف جنرل آغا محمد یحییٰ خان کا تعلق موجودہ صوبہ خیبر پختونخوا سے تھا جبکہ جنرل محمد ضیاء الحق جالندھر کے مہاجر اور جنرل سید پرویز مشرف دہلی کے مہاجر تھے۔

ہمارے پنجابی دوستوں کا ایک موثر حلقہ ویسے تو پچھلے ڈیڑھ دو عشروں سے ہمسایہ اقوام پر برہم ہے لیکن وقت کے ساتھ یہ برہمی بڑھتی جارہی ہے۔ میں ایک طالب علم کی حیثیت سے ان کی صرف ایک بات سے متفق ہوں کہ ملک میں جو 4 مارشل لاء لگے ان میں سے دو فوجی حکمران آج کے صوبہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھتے تھے اور 2 بٹوارے کی بدولت تشریف لائے مہاجر تھے۔
فیلڈ مارشل ایوب خان اور کمانڈر انچیف جنرل آغا محمد یحییٰ خان کا تعلق موجودہ صوبہ خیبر پختونخوا سے تھا جبکہ جنرل محمد ضیاء الحق جالندھر کے مہاجر اور جنرل سید پرویز مشرف دہلی کے مہاجر تھے۔
اس ایک بات سے متفق ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اس بات کو یکسر نظرانداز کریں کہ جسے ہم پنجابی اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں اس میں صرف پنجابی ہی ہیں۔ ایک لمبے عرصے تک اسٹیبلشمنٹ کو پنجابی پشتون مہاجر ٹرائیکا کہا سمجھا جاتا تھا۔ یہ عرصہ بٹوارے کے دن سے شروع ہوا اور جنرل پرویز مشرف پر اس کا تقریباً اختتام ہوتا دیکھائی دیتا ہے مگر نہ کسی صورت میں یہ ٹرائیکا آج بھی موجود ہے اور اس میں بالادستی پنجاب کو ہی حاصل ہے۔
اسی طرح اگر ہم 4 عدد سکہ بند مارشل لائوں ان میں سے پرویز مشرف دور کو جرنیلی جمہوریت کا دور بھی کہہ سکتے ہیں کے منافع خوروں معاف کیجئے گا کہ نرم سے نرم انداز میں بینفشری کہہ لیتے ہیں، کا تناسب دیکھیں تو پنجاب کا حصہ زیادہ ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بینفشریوں میں دوسری اقوام کے نمائندے شامل نہیں۔
ضروری نہیں کہ دوسری اقوام کے بینیفشریوں میں سول و ملٹری بیوروکریسی میں موجود ان اقوام کے لوگ ہوں بلکہ پنجابیوں کی سول اشرافیہ کی طرح دوسری اقوام کی سول اشرافیہ بھی بینیفشریوں کے زمرے میں ہی آئے گی یہاں یہ نکتہ درست محسوس ہوتاہے کہ جب اسٹیبلشمنٹ کے طاقتور پنجابی دھڑے کی مذمت کی جائے تو اس کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ اور اس سے باہر کے ان سہولت کاروں اور منافع خوروں کی بھی مذمت لازم ہے جو اپنی اپنی اقوام کے حقوق کی فروخت کے بدلے طاقت و اختیار اور ا قتدار میں حصہ وصول کرکے مزے کرتے ہیں۔
ہماری دانست میں جس بات کو ہمارے پنجابی دوست نظرانداز کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ پنجاب سے ہمسایہ اقوام کو شکایات کیوں پیدا ہوئیں؟
پنجاب کے لوگوں کی غالب اکثریت بٹوارے سے پیدا شدہ افسوسناک صورتحال کی وجہ سے ایک خاص طرح کی بھارت دشمنی میں گردن تک دھنسی رہی ’’رہی‘‘ اس لئے لکھا ہے کہ اب اس جھوٹ کا جادو دم توڑ رہا ہے کہ پاکستان اسلام یا مسلمانوں کے لئے بنا تھا۔ برصغیر کے مسلمان ایک قوم تھے۔ پاکستان نہ بنتا تو ہندو بنیا مسلمانوں کو بھون کر کھاجاتا یا یہ کہ جونہی پاکستان کا قیام حقیقت بنا ہندوئوں اور سکھوں نے مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہادیں۔
سبھی نہیں تو ایک اکثریت اسلام پاکستان، مسلم قومی شناخت بھارت دشمنی وغیرہ وغیرہ کی بنیاد پر پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو محافظ و نجات دہندہ سمجھتی تھی اور تقریباً اب بھی ہے تقریباً اس لئے کہ اب پنجاب کے اندر سے ہی تاریخ سے ہوئے بلاتکار اور مغالطہ پاکستان پر سوالات اٹھائے جانے لگے ہیں ۔ اسی طرح ہمسایہ اقوام کے پنجاب سے سیاسی و معاشی بنیادوں پر (معاشی میں سرکاری ملازمتوں اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم بھی شامل ہے) استحصال کا معاملہ بھی ہے۔
محض یہ کہہ دینا کہ آبادی کےتناسب سے وسائل تقسیم ہوتے درست نہیں۔ مثال کے طور پر خیبر پختونخوا بجلی کی رائلٹی کی حقیقی رقم میں سے کم رقم کی بھی بروقت ادائیگی نہ ہونے پر ہمشیہ شاکی رہتا ہے۔ بلوچستان کے سوئی گیس کی رائلٹی کے علاوہ بھی بہت سارے شکوے ہیں اور سندھ کے بھی، خود صوبہ پنجاب کے اندر اس کے جنوبی اضلاع میں جسے مقامی لوگوں کی اکثریت سرائیکی وسیب کہتی ہے، کی ڈھیروں شکایات ہیں۔
اس حقیقت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خود پنجابیوں کے پاس بھی ایسی سیاسی قیادت نہیں ہے جو ہمسایہ اقوام کے ساتھ بیٹھ کر ان کے دکھڑے سنے اور مکالمہ کرے۔
اس سوال پر خود پنجابیوں کو غور کرنا ہوگا کہ اسلام، نظزیہ پاکستان، دو قومی نظریہ، بھارت دشمنی، وفاق پرستی اور اس طرح کے دوسرے سودوں کی خریدوفروخت سے انہیں کیا ملا؟
یہ کہنا کہ دیگر اقوام کے پنجابیوں سے شکوے غلط ہیں درست نہ ہوگا یہ شکوے سمجھنے کے لئے اسلام کا قلعہ اور مارشل ریس کے زعموں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ چھٹکارا کیسے مل سکتا ہے یہ خود پنجابی دوستوں کو سوچنا ہوگا البتہ اگر ہم یہ کہیں کہ اس غوروفکر سے پہلے پنجاب کو اردو بنگالی تنازع کی ابتداس میں مقامی زبانوں کے ساتھ کھڑا ہونے کی بجائے لشکری زبان اردو کے ساتھ کھڑا ہونے پر معذرت کرنا چاہیے تو یہ نادرست ہوگز نہ ہوگا۔
اسی طرح پنجاب کو یہ حقیقت کھلے دل سے تسلیم کرنا ہوگی کہ پرتشدد فرقہ پرست تنظیموں کا قیام ہو یا ریاست کی جہادی تجارت، ہر دو میں پنجاب اولین مرحلے میں ریاست کا ساجھے دار بنا یہ الگ بات ہے کہ آگے چل کر یہ ساجھے داری پشتونوں نے حاصل کرلی
لیکن پنجاب میں آج بھی فرقہ وارانہ نفرتوں کی نہ صرف خلیج بہت گہری ہے بلکہ یہ کاروبار کرنے والے محبوب و محترم سمجھے جاتے ہیں اس کی ایک تازہ مثال مرحوم خادم حسین رضوی کی وراثت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
ہاں یہ درست بات ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد اور جہادیت کے کاروبار کے بڑھاوے کا تنہا پنجاب کو ذمہ دار ٹھہرانا غلط ہوگا لیکن ان دونوں دھندوں کی ابتدائی فیکٹریاں تو پنجاب میں ہی لگیں۔ پنجاب سے شکایت یہ ہے کہ وہ آج بھی وفاق پرستی کے جادو کا توڑ نہیں کرپایا ورنہ دیکھا جائے تو موجودہ حالات میں دو دستوری ترامیم کے لئے جدوجہد میں پہل پنجاب کو کرنا چاہیے اولاً فیڈریشن کو کنفیڈریشن میں تبدیل کرنا اور ثانیاً دستور میں رہتے ہوئے نیا عمرانی معاہدہ ، لیکن یہ عمرانی معاہدہ پاکستان کی جغرافیائی حدود میں آباد قوموں کے درمیان ہو۔
ہر دو باتیں اگر عملی شکل اختیار کرپاتی ہیں تو ایک متوازن ماحول میں ماضی کے گلوں شکوئوں کے ساتھ آگے بڑھنے اور مل جل کر رہنے کے اصول وضع کئے جاسکتے ہیں۔
آج یقیناً میری بات سے کچھ یا اس سے زیادہ لوگوں کو تکلیف ہوگی مگر اب ہمارے پاس کنفیڈریشن کی طرف بڑھنے اور اقوام کو مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دینے کے علاوہ کوئی دوسرا اور حتمی حل نہیں بچا۔
تاخیر مسائل کو گھمبیر بنائے گی۔ مثلاً اس ملک کے تمام وفاقی اداروں اور محکموں سمیت سپریم کورٹ میں اقوام کی مساوی نمائندگی ازبس ضروری ہے۔
میں پنجابی دوستوں کو ایک مثال کے ذریعے حقیقت اور ضرورت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے انہیں بتاناچاہتا ہوں کہ آج صوبہ پنجاب کے سرائیکی بولنے والے اضلاع میں الگ سرائیکی صوبے کے قیام کی جو سوچ اور جدوجہد دیکھائی دیتی ہے انہیں اس پر پنجابی زبان، پنجاب کے دشمن یا پنجاب کی تقسیم کی غلط العام بات کرنے کی بجائے دو باتوں کو دیکھنا سمجھنا ہوگا ۔
مثلاً ملتان پر رنجیت سنگھ کے قبضے سے قبل ملتان ان کے پیش کردہ تصور پنجاب کا کبھی حصہ ہی نہیں رہا اس نکتے پر اگر کوئی سرائیکیوں کو بھاشن دے تو پھراس کے لئے تیار رہے کہ اگر قریب قریب کی تاریخ میں سے راجہ ڈاہر کی حکومت والے جغرافیہ پر بات شروع ہوئی تو کہاں تک جائے گی۔
دوسری بات یہ ہے کہ 1960ء کی دہائی کے اوائل میں پہلی بار سرائیکی زبان کو ریڈیو پر آبادی کے تناسب سے وقت دینے اور پانچویں تک مادری زبان میں تعلیم کے دو مطالبات سامنے آئے ان مطالبات کا جو ’’حشر‘‘ ہوا۔ آگے چل کر نہ صرف مطالبات میں اضافہ ہوا بلکہ سرائیکی اور پنجابی بولنے والوں میں دوریاں یہاں تک بڑھ گئیں کہ الگ سرائیکی صوبے کا مطالبہ سامنے آگیا۔
اس مطالبہ پر پنجاب کی تقسیم کی پھبتی کسنے والے اصل میں وسائل کی منصفانہ تقسیم سے ہی خائف نہیں بلکہ اس جبرواستحصال کے حق سے بھی محروم ہونے سے خوفزدہ ہیں جو موجودہ فیڈریشن میں پنجاب کو حاصل ہے۔
ہماری رائے میں ان معروضات پر ٹھنڈے دل سے غورکرنے اور تاریخ کے اوراق الٹنے کی ضرورت ہے۔
آخری بات ہم کبھی یہ نہیں کہتے کہ پنجابیوں کی ہمسایہ اقوام کی خودغرض لالچی اقتدار پرست اشرافیہ اپنی اپنی اقوام کی مجرم نہیں ہاں پنجاب کو سوچنا ہوگا کہ ان ٹوڈیوں کو پالتے رہنے سے اختلاف گالی میں تبدیل ہوا تو ذمہ دار کون ہے؟

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button