اہم خبریںپاکستانتازہ ترین

فیض حمید کیس میں جو بھی شخص ملوث ہوگا، اس کا کوئی بھی عہدہ یا حیثیت ہو، کارروائی ہوگی: ڈی جی آئی ایس پی آر

8 ماہ میں دہشتگردوں اور سہولت کاروں کے خلاف 32 ہزار 173 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے 90 خوارج کو واصل جہنم کیا 193 بہادر افسران اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا پوری قوم انہیں خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ جنرل احمد شریف چوہدری

راوالپنڈی (نمائندہ وائس آف جرمنی):‌ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا ہے کہ ’پاک فوج خود احتسابی کے عمل پر یقین رکھتی ہے اور احتسابی کا یہ نظام جامع ہے۔ فیض حمید کیس پاک فوج میں خود احتسابی کے عمل کا ٹھوس ثبوت ہے۔‘
جمعرات کو پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا ہے کہ پاکستانی فوج ایک قومی فوج ہے اور اس کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں۔ پاکستانی فوج کسی جماعت کی مخالف ہے نہ طرف دار۔
’اگر پاک فوج میں کوئی افسر ذاتی مفادات کےحصول کے لیے کام کرتا ہے، یا کسی مخصوص جماعت کا ایجنڈا پروان چڑھاتا ہے تو پاک فوج کا خود احتسابی کا عمل خود حرکت میں آ جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائیرڈ) فیض حمید کیس اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ پاک فوج ذاتی یا سیاسی مفادات کے لیے کی گئی خلاف ورزیوں کو کس قدر سنجیدگی سے لیتی ہے اور بلا تفریق قانون کے مطابق فوری کارروائی کرتی ہے۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’ہمارا احتساب کا عمل شفاف ہے اور یہ الزامات پر نہیں بلکہ ثبوت اور شواہد پر کام کرتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ٹھوس شواہد پر مبنی تفصیلی انکوائری مکمل ہونے کے بعد 12 اگست کو آگاہ کیا گیا کہ متعلقہ افسر نے پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کی خلاف ورزیاں کی ہیں، اور یہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیوں کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔ ان بنیادوں پر فلیڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی کا آغاز کیا جا چکا ہے۔‘
کیا عمران خان کے خلاف ملٹری ایکٹ کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے؟
ڈی جی آئی ایس پی آر سے سوال کیا گیا کہ جیسے جیسے لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی آگے بڑھ رہی ہے تو پی ٹی آئی رہنماؤں کی طرف سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ عمران خان کو فوجی تحویل میں لیا جا سکتا ہے، یا ان کے خلاف بھی ملٹری ایکٹ کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے؟
انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ کیس عدالت میں ہے، اور آپ کا سوال مفروضے پر مبنی (ہائپوتھیٹیکل) بھی ہے، لیکن میں آپ کو یہ ضرور کہوں گا کہ فوجی قانون کے مطابق کوئی بھی شخص کسی بھی فرد کو یا افراد کو جو آرمی ایکٹ کے تابع ہوں ان کو اپنے ذاتی یا سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرے اور اس کے ثبوت و شواہد موجود ہوں تو قانون اپنا راستہ بنا سکتا ہے۔‘
فیض حمید کیس میں ملوث شخص کا کوئی بھی عہدہ یا حیثیت ہو، کارروائی ہوگی
لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کیس کے حوالے سے پوچھا گیا کہ اس کارروائی میں کتنا وقت لگے گا اور اب تک کتنے لوگ گرفتار ہو چکے ہیں؟
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’جو ہمارا ملٹری کا کورٹ مارشل کا یا لیگل سسٹم ہے بہت تیزی سے کام کرتا ہے، لیکن جو قانونی یا انصاف کے تقاضے ہیں وہ مقدم ہیں۔ جس کا بھی کورٹ مارشل ہوتا ہے اس کو فیئر ٹرائل کے، وکیل کرنے کے، گواہ پیش کرنے کے، جرح کرنے، ثبوت پیش کرنے اور اپیل کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں کوئی حتمی ٹائم فریم نہیں رکھا جا سکتا۔‘
’جہاں تک یہ سوال ہے کہ اور کتنے لوگ گرفتار ہوئے ہیں تو یہ پہلے بھی کہا کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے اور ضروری تفصیلات آپ کو بتائی جائیں گی، لیکن میں آپ کو یہ بتا دوں کہ جو بھی شخص اس کیس میں ملوث ہوگا وہ قانون کی گرفت سے باہر نہیں رہے گا، چاہے اس کا کوئی بھی عہدہ ہو یا اس کی کوئی بھی حیثیت ہو۔‘
گذشتہ ماہ بلوچستان میں ہونے والے حملوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ ’بلوچستان میں احساس محرومی کا تاثر پایا جاتا ہے جس کا کچھ عناصر فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ بلوچستان میں دہشتگردی کرنے اور کرانے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف رواں سال اب تک 32 ہزار 173 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے گئے ہیں۔ دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے روزانہ 130 سے زائد آپریشنز ہو رہے ہیں۔
’گذشتہ ایک ماہ میں چار ہزار آپریشنز کیے گئے۔ ایک ماہ میں فتنہ الخوارج کے 90 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کے لیے 130 سے زائد آپریشنز افواج پاکستان، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے انجام دے رہے ہیں۔
’آٹھ ماہ میں 193 بہادر افسران اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، پوری قوم انہیں خراج تحسین پیش کرتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ انسداد دہشتگردی کی جنگ مربوط حکمت عملی کے تحت کامیابی سے لڑی جا رہی ہے۔ ’فتنہ الخوارج کے خلاف جنگ آخری خارجی کے خاتمے تک جاری رہے گی۔‘

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button