صرف عسکری طریقہ کار غزہ کی جنگ کا حل نہیں، جرمن وزیر خارجہ
حماس کے زیر حراست یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں فائر بندی کے لیے بین الاقوامی سطح پر کوششیں جاری ہیں تاہم اب تک ان کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔
جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک ان دنوں پھر مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہیں، جہاں انہوں نے آج بروز جمعہ اسرائیل کے ساحلی شہر تل ابیب میں اپنے اسرائیلی ہم منصب اسرائیل کاٹز سے بھی ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد ان کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”گزشتہ ویک اینڈ نے ڈرامائی طور پر یہ ثابت کیا ہے کہ خالصتاً صرف عسکری طریقوں سے غزہ کی صورتحال کا حل نہیں مل سکتا۔‘‘
جرمن وزیر خارجہ کا اشارہ گزشتہ اتوار کو ہونے والی اس پیش رفت کی طرف تھا، جب غزہ میں چھ اسرائیلی مغویوں کی لاشیں ملنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ ان مغویوں کی موت نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو پر حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ کرنے کے لیے ملکی سطح پر بھی دباؤ بہت بڑھا دیا ہے۔
انالینا بیئربوک نے فوری ”جنگ بندی‘‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے اسرائیلی حکام کے ان اشتعال انگیز بیانات کے بھی مخالفت کی، جو وہ مقبوضہ مغربی کنارے کے بارے میں دیتے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ اسرائیلی فورسز نے 28 اگست کو مقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینی علاقے کے متعدد شہروں میں مسلح چھاپے مارے تھے، جن کے نتیجے میں کم از کم 36 افراد مارے گئے تھے۔
غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں گزشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر عسکریت پسند فلسطینی تنظیم حماس کے ایک دہشت گردانہ حملے کے بعد شروع ہوئی تھیں اور اب تک جاری ہیں۔ اسرائیل کے مطابق اس دہشت گردانہ حملے میں تقریباﹰ بارہ سو افراد ہلاک ہوئے تھے اور قریب ڈھائی سو افراد کو حماس کے جنگجو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے تھے۔ ان میں سے کئی مغویوں کی رہا کر دیا گیا ہے لیکن کئی اب بھی حماس کی حراست میں ہیں اور متعدد کے ہلاک ہونے کی بھی تصدیق ہو چکی ہے۔
حماس کے زیر حراست یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں فائر بندی کے لیے بین الاقوامی سطح پر کوششیں جاری ہیں تاہم اب تک ان کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔
اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے سیاست دان اور قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر نے جمعے کو ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ انہوں نے وزیر اعظم نیتن یاہو سے کہا ہے کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے میں حماس اور ”دیگر دہشت گرد تنظیموں‘‘ کی شکست کو بھی غزہ جنگ کے اپنے مقاصد میں شامل کر لیں۔
لیکن اس مطالبے کی مخالفت کرتے ہوئے جرمن وزیر خارجہ بیئربوک کا کہنا تھا، ”جب اسرائیلی حکومت کے اراکین مغربی کنارے میں غزہ کی طرح کے طرز عمل کا مطالبہ کرتے ہیں، تو یہی وہ چیز ہے، جو اسرائیل کی سلامتی کو شدید خطرے میں ڈالتی ہے۔‘‘
انالینا بیئربوک نے اسرائیل جانے سے پہلے کل جمعرات کو عمان میں اردنی وزیر خارجہ ایمن الصفادی سے بھی ملاقات کی تھی، جہاں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ برلن حکومت غزہ پٹی کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد میں 55 ملین ڈالر کا اضافہ کرنے والی ہے۔ اپنے اردنی ہم منصب سے ملاقات سے قبل انہوں نے ریاض میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود سے بھی ایک ملاقات کی تھی۔
مقبوضہ مغربی کنارے میں نئی یہودی بستیوں کا مسئلہ
جرمن وزیر خارجہ نے تل ابیب کے اپنے دورے کے دوران اسرائیل سے مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاری کے نئے منصوبوں کو روکنے کا مطالبہ بھی کیا۔ بیئربوک نے اسرائیلی حکومت پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے میں آبادکاری کے منصوبوں کو ختم کرے تاکہ خطے میں اعتماد سازی میں مدد ملے۔
انہوں نے کہا کہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے، ”میرے خیال میں اسرائیلی حکومت پہلے قدم کے طور پر آباد کاری کے موجودہ منصوبوں کو روک کر اپنے لیے کھویا ہوا بین الاقوامی اعتماد دوبارہ حاصل کر سکتی ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیلی حکومت کو ” آباد کاروں کی طرف سے کی جانے والی پر تشدد کارروائیوں کے خلاف مضبوط اور زیادہ واضح کارروائی‘‘ کرنا چاہیے۔ انالینا بیئربوک نے گزشتہ روز اردن میں کہا تھا کہ اسرائیل ”وہاں (مقبوضہ مغربی کنارے میں) ایک قابض طاقت ہے اور وہ جنیوا کنونشن کے تحت اسے خطرے میں ڈالنے کے بجائے وہاں امن و امان برقرار رکھنے کا پابند ہے۔‘‘
جرمن وزیر خارجہ نے کہا کہ اسرائیل کی اس ذمے داری میں ”واضح طور پر پرتشدد اور بنیاد پرست آباد کاروں کے حملوں سے مقامی آبادی کی حفاظت کرنا بھی شامل ہے۔‘‘
خیال رہے کہ اسرائیل نے دو ماہ قبل مقبوضہ مغربی کنارے میں متعدد یہودی بستیوں میں پانچ ہزار سے زائد نئے ہاؤسنگ یونٹوں کی تعمیر کی منظوری دینے کے ساتھ ساتھ کئی ”سیٹلرز چوکیوں‘‘ کو قانونی حیثیت دے دینے کا فیصلہ بھی کیا تھا۔
ا ا / م ا، م م (ڈی پی اے، اے ایف پی)