عمران خان کے خلاف فوجی عدالت میں ٹرائل ممکن ہے
عمران خان کے خلاف ملٹری کورٹس میں ٹرائل کا معاملہ اس وقت کے بعد زیادہ زیربحث آیا ہے جب سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کو پاکستان فوج کی طرف سے باضابطہ حراست میں لیا
عمران خان نے خود بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں انہوں نے اپنا ٹرائل ملٹری کورٹس میں روکنے سے متعلق کی استدعا کی ہے۔ اس درخواست پر فی الحال عدالت کی طرف سے اعتراضات عائد کردیے گئے ہیں جنہیں دور کرنے کے بعد ہی اس پر کارروائی ہو گی۔
عمران خان کے خلاف ملٹری کورٹس میں ٹرائل کا معاملہ اس وقت کے بعد زیادہ زیربحث آیا ہے جب سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کو پاکستان فوج کی طرف سے باضابطہ حراست میں لیے جانے اور فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا بیان سامنے آیا۔ اس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ فیض حمید اور دیگر فوجی افسران عمران خان کے خلاف نو مئی کے حوالے سے وعدہ معاف گواہ بن سکتے ہیں اور عمران خان کے خلاف ملٹری کورٹ میں کیس چلانے کے لیے انہیں فوج کی تحویل میں دیا جا سکتا ہے جہاں ایسے گواہان کی مدد سے انہیں سخت سزا سنائی جاسکتی ہے۔
کیا سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ممکن ہے؟
عمران خان کے ٹرائل کے بارے میں ملکی حکومت کا تو کہنا ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق یہ ٹرائل ممکن ہے، جبکہ پی ٹی آئی کے وکلا کا استدلال ہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے فیصلہ کی موجودگی میں عمران خان کا ٹرائل، فوجی عدالت میں ممکن نہیں۔ بعض قانونی ماہرین کا تاہم کہنا ہے کہ عمران خان کے اپنے دور میں بھی سویلین کا ٹرائل ہوا اور اب ان کے خلاف بھی فوجی عدالت میں ٹرائل ہونے جا رہا ہے۔
پاکستان میں فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کیے جانے کی مثالیں ماضی میں بھی موجود ہیں لیکن نو مئی کے بعد یہ بحث زیادہ شدت سے سامنے آئی اور نو مئی کے واقعات میں ملوث 103 افراد کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں کرنے کا جب فیصلہ کیا گیا تو پاکستان تحریک انصاف اس معاملہ کو سپریم کورٹ میں لے گئی۔
نو مئی 2023 کو ملک بھر میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے الزام میں سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں سے بیش تر افراد کا تعلق پاکستان تحریکِ انصاف سے تھا۔ ان کارکنوں کی گرفتاری کے بعد سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی کہ سویلین افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہو سکتا۔
بعد ازاں اکتوبر 2023 میں جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ دیا کہ سویلین افراد کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں نہیں ہو سکتا۔
اس فیصلے کو وفاقی حکومت، وزارتِ دفاع، پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان حکومتوں نے انٹراکورٹ اپیلوں کے ذریعے چیلنج کر دیا اور بعدازاں چھ ججوں کے بینچ نے 13 دسمبر 2023 کو یہ فیصلہ پانچ ایک کی اکثریت سے معطل کر دیا۔ انٹرا کورٹ اپیلز پر 29 جنوری کو ہونے والی آخری سماعت میں جسٹس سردار طارق مسعود نے انہیں تین ججوں پر مشتمل کمیٹی کے پاس بھیج دیا تاکہ اسے لارجر بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جا سکے۔ 22 مارچ کو سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر ہو گئی تھیں۔
عمران خان کے ٹرائل کے لیے سویلین عدالتیں موجود ہیں، عمران شفیق ایڈوکیٹ
عمران خان کا ٹرائل فوجی عدالت کے بجائے سویلین عدالت میں کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے قانون دان عمران شفیق نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ” اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ موجود ہے جس میں سویلین کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں نہ کیے جانے کا کہا گیا ہے۔ اس فیصلہ پر حکم امتناعی موجود ہے لہٰذا عمران خان کے خلاف ٹرائل تو ہوسکتا ہے لیکن اس میں فیصلہ سپریم کورٹ کے حتمی فیصلہ کے بعد ہی ہوگا۔ اگر اس معاملہ میں حکومت کی درخواست کے خلاف فیصلہ آیا توعمران خان کا ٹرائل کالعدم ہوجائے گا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت ملٹری قانون کے تحت ملٹری سے تعلق رکھنے والے ہی اس قانون کے تابع ہیں۔ کوئی سویلین اگر بڑے سے بڑا جرم کرتا ہے تو اس کے لیے دہشت گردی عدالت سے لیکر دیگر عدالتیں موجود ہیں جو کسی بھی سویلین کو سخت سے سخت سزا دے سکتی ہیں۔
عمران خان کے ساتھ جو ہو رہا وہ مکافات عمل ہے، کرنل (ر) انعام الرحیم
ملٹری عدالتوں کے معاملات پر عبور رکھنے والے لیفٹننٹ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ اب تک فوج نے عمران خان کے ملٹری عدالت میں ٹرائل کا کوئی واضح اعلان نہیں کیا البتہ عمران خان کو شک ہے کہ ان کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہوگا۔
انعام الرحیم کے مطابق عمران خان کے ساتھ جو بھی ہورہا ہے وہ مکافات عمل کہا جاسکتا ہے کیونکہ عمران خان کے اپنے دور میں انسانی حقوق کے کارکن ادریس خٹک سمیت 29سویلین افراد کا ملٹری ٹرائل کیا گیا اور انہیں سزائیں دی گئیں۔ تین سابق فوجی جو سویلین شمار ہوتے تھے، انہیں سزائے موت اور باقی کو عمر قید سمیت مختلف سزائیں سنائی گئیں۔
انہوں نے کہا، ”جن سویلین کا ٹرائل عمران خان کے دور حکومت میں ہوا وہ اس وقت بھی عمران خان کے برابر والے سیل میں موجود ہیں۔ میں نے سویلین کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کا کیس سپریم کورٹ میں چیلنج کررکھا ہے جس میں فیض حمید ،عمران خان اور جنرل باجوہ کو فریق بنایا ہے۔‘‘
عمران خان کے فوجی ٹرائل کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا، بیرسٹر عقیل ملک
حکومت کے مشیر برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک کا اس بارے میں کہنا ہے کہ عمران خان کے ٹرائل کے بارے میں ابھی فیصلہ نہیں ہوا اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں ان کی درخواست اعتراض لگا کر واپس کردی گئی ہے ۔ انہوں نے کہا، ”آئین اور قانون کے مطابق اگر کوئی شخص اپنے ذاتی مفادات کے لیے ایسا کوئی کام کرتا ہے جو ملٹری کے دائرہ کار میں آتا ہو تو اس کے خلاف ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سیکشن 94 میں یہ گنجائش موجود ہے کہ ملٹری کسی سویلین شخص کو اپنی تحویل میں لے سکتی ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ضابطہ فوجداری کے سکیشن 549 کے تحت کسی بھی سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوسکتا۔
پاکستان تحریک انصاف کے وکیل شعیب شاہین نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ موجود ہے کہ کسی سویلین کا ٹرائل فوجی عدالت میں نہیں ہوسکتا: ”دو ہفتے قبل لاہور ہائیکورٹ میں بھی کہا گیا کہ عمران خان کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں کہ وہ نو مئی کے کیسز میں ملوث ہیں۔ اگر عمران خان کے خلاف کوئی ثبوت ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے، اس کے لیے ضروری نہیں کہ ان کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہی کیا جائے۔‘‘
عمران خان کے دور حکومت میں سویلینز کے ٹرائل کے بارے میں انہوں نے کہا کہ عمران خان کے دور میں بھی اگر ایسا ہوا تو وہ غلط ہوا اور وہ عمران خان سے پوچھ کر نہیں ہوا۔