لاہور(بیورورپورٹ): پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں احمدی کمیونٹی کی درجنوں قبروں کے کتبے مسمار کرنے پر کمیونٹی کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ احمدی کمیونٹی کا کہنا ہے کہ اُنہیں نفرت انگیز مہم کا سامنا ہے، لہذٰا ریاست اُنہیں تحفظ فراہم کرے۔
احمدی کمیونٹی کے مطابق گزشتہ ماہ 29 ستمبر کو کچھ عناصر نے پولیس کی موجودگی میں 47 احمدیوں کی قبروں کے کتبے مسمار کیے۔
جماعت احمدیہ کے مطابق مقامی قبرستان میں کل 48 قبروں پر کتبے موجود تھے جن میں سے 47 کتبے شرپسندوں نے توڑ دیے۔ جماعت کے مطابق واقعے کے دوران دو نوجوانوں نے ویڈیو بنانے کی کوشش کی تو اُن کو حراست میں لے لیا گیا۔ بعد ازاں ان کے موبائل سے ویڈیو ڈیلیٹ کر کے اُنہیں چھوڑ دیا گیا۔
جماعتِ احمدیہ کے مطابق اس سے قبل 25 ستمبر کو وہاڑی میں بھی اسی نوعیت کے واقعات میں احمدیوں کی قبروں کے کتبوں پر لکھی تحریروں پر پولیس نے سیاہ رنگ پھیر دیا تھا۔
خیال رہے کہ پاکستان میں آباد احمدی خود کو مسلمان سمجھتے ہیں، تاہم آئینِ پاکستان اُنہیں غیر مسلم قرار دیتا ہے۔
جماعت احمدیہ کے مطابق گزشتہ ماہ 22 ستمبر کو لاہور کے علاقے اسلامیہ پارک میں کچھ شرپسندوں نے اُن کی عبادت گاہ کا گھیراؤ کیا۔ وہاں نعرے بازی کی اور اُسے نقصان پہنچانے کی بھی کوشش کی گئی۔
اِسی طرح گزشتہ ماہ 10 سمتبر کو ضلع اوکاڑہ کے علاقے دیپالپور میں ایک احمدی عبادت گاہ کے مینار توڑے گئے اور وہاں لکھے مقدس کلمات مٹا دیے گئے۔ جماعت احمدیہ کے مطابق گزشتہ ماہ 16 ستمبر کو ضلع سیالکوٹ کے علاقے سمبڑیال کے ایک نجی کالج سے ایک پروفیسر کو احمدی ہونے کی بنیاد پر ملازمت سے برخاست کر دیا گیا۔ اسیطرح ضلع خوشاب کے نواحی گائوں قائدہ آباد کے مقامی ویٹرنری ڈاکٹر کاشف بخاری کو بھی نشانہ بنایا گیا اور ان سے منسلک کاروباری لوگوں نے ان کو گھیرے میں لیکر انکو متنبہ کیا اور کاروباری بائکاٹ کردیا.
جماعت احمدیہ کا یہ دعویٰ ہے کہ مذہبی عقائد کی بنیاد پر اُن کے خلاف نفرت انگیز مہم صرف پاکستان میں ہی جاری نہیں بلکہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی یہ بڑھ رہی ہے۔ اُن کے مطابق گزشتہ ماہ 19 اور 20 ستمبر کی درمیانی شب ضلع کوٹلی کے قبرستان میں تین احمدیوں کی قبروں کے کتبوں کو توڑ دیا گیا۔
جماعت احمدیہ یہ الزام عائد کرتی ہے کہ اِن سب واقعات کے پیچھے ایک مذہبی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) ہے اور اِس کی پشت پناہی پولیس کر رہی ہے۔