سیدی بلھے شاہؒ کا عاشقِ صادق ، اکرم شیخ ….حیدر جاوید سید
جس تحریر کی دس بارہ سطور پانچ دن پہلے لکھی تھیں وہ ایک تعزیتی تحریر تھی۔ لگ بھگ چار دہائیوں پر پھیلے زندہ و باعلم ساتھ تمام ہونے کا نوحہ تھا۔
کئی دنوں سے کچھ لکھنے کو جی آمادہ نہیں ہورہا۔ قلم مزدوری کی مجبوری یہ ہے کہ اداریہ بہرصورت روزانہ ہی لکھنا ہوتا ہے سو وہی لکھ رہا ہوں۔ پانچ دن قبل ایک تحریر لکھنے بیٹھا۔ دس بارہ سطریں لکھ سکا، لکھی ہوئی سطروں میں سے نصف آنسوئوں سے بھیگ گئیں۔ ذہن مائوف اور جسم بے جان سا ہوگیا۔
جس تحریر کی دس بارہ سطور پانچ دن پہلے لکھی تھیں وہ ایک تعزیتی تحریر تھی۔ لگ بھگ چار دہائیوں پر پھیلے زندہ و باعلم ساتھ تمام ہونے کا نوحہ تھا۔
یہ محبت بھرا علمی ادبی اور ذاتی تعلق سال 1985ء میں شروع ہوا اور ہفتہ 28/ستمبر (2024ء) کو ختم ہوگیا۔ گو یہ اختتام ظاہری ہے۔ ظاہری اختتام سے محبت بھرے تعلق کہاں ختم ہوتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ یہ تعلق ہمارے بچوں اور ممکن ہوا تو اگلی نسلوں میں بھی برقرار رہے گا فی الوقت نہ رہنے کی کوئی وجہ نہیں۔ میری صاحبزادی سیدہ فاطمہ حیدر اپنے تایا ابو، ہمارے دوست مربی استاد اور بڑے بھائیوں کی طرح شفیق و کریم رہنے والے اکرم شیخ کی محبتوں سے بخوبی آگاہ ہے۔
اکرم شیخ ادیب تھے نقاد، مترجم، شاعر، کالم نگار، ان سب سے بڑھ کر وہ ایک اچھے اور اعلیٰ ظرف انسان تھے۔ شیخ صاحب مرشد بلھے شاہؒ کے عاشق صادق تھے۔ قلم مزدوری روزی روٹی کے لئے تھی مگر روحانی تسکین کے لئے انہوں نے بلھے شاہؒ، وارث شاہؒ، بابا فریدؒ، خوجہ غلام فریدؒ، نانک و میرا بائی ، پر پنجابی زبان میں ہے بے بہا لکھا۔
وارث شاہؒ کی ’’ہیر وارث شاہ‘‘ کا منظوم اردو ترجمہ ان کی فنی مہارت کا شاہکار ہے۔’’پنجاب کا صوفی ورثہ‘‘ بھی ایک ایسی لازوال تخلیق ہے جو انہیں صدیوں زندہ رکھے گی۔
صوفیانہ کلام، صوفی فکراور ذیلی مضامین پر ان کی پنجابی زبان میں درجن بھر سے زیادہ تصانیف طبع ہوچکیں۔
انکا خمیر ضلع قصور کے معروف قصبے للیانی (اب مصطفیٰ آباد) کی مٹی سے گندھا ہوا تھا۔ گفتگو اور نثروشاعری تینوں قصوری میتھی، قصوری مٹی اور مرشد کریم سیدی بلھے شاہؒ کی فکر کی خوشبو سے مہکتی رہیں۔
یہ مہک رہتی دنیا تک یونہی رہے گی۔ سفید پوش محنت کش خانوادے میں جنم لینے والے اکرم شیخ نے سفر حیات کے راستے خود منتخب کئے اور پھر بڑی بہادری کے ساتھ ان پر ثابت قدمی سے چلتے رہے۔
ہم سال 1985ء میں ملے تھے۔ یہ سطور لکھتے ہوئے پہلی ملاقات کا منظر آنکھوں میں اتر آیا ہے۔ ان دنوں میں ہفتہ روزہ ’’رضاکار‘‘ لاہور میں سپہر کے بعد بیٹھتا تھا۔ صبح ہفت روزہ ’’کہکشاں‘‘ لاہور میں کام کرتا۔ شیخ صاحب غالباً روزنامہ ’’آفتاب‘‘ میں تھے۔ وہ افتخار قریشی کو لے کر ’’رضاکار‘‘ کے دفتر آئے تھے۔ قریشی کا کوئی کام تھا۔
یہ پہلی ملاقات چند منٹ کی بجائے چند گھنٹوں پر پھیل گئی۔ وقت گزرنے کا احساس اس وقت ہوا جب ہمارے دفتری ساتھی سید منتظر مہدی نے میرے کمرے کا تالہ کھول کر میز پر رکھتے ہوئے کہا ’’حیدر بھائی جب جانے لگیں تو تالہ لگاتے جائیں‘‘۔ یار منتظر نیچے بنگالی کو ہاف سیٹ چائے کہتے جانا۔
گفتگو دوبارہ شروع ہوگئی۔ اس ملاقات نے ایک ایسے تعلق کی بنیاد رکھی جو لگ بھگ چار دہائیوں تک نبھا اور خوب نبھا۔ ان چار دہائیوں کے دوان آگے چل کر ہم نے چند اداروں میں اکٹھے کام بھی کیا۔ مساوات، زنجیر، مشرق (پشاور)، میدان (پشاور) دی فرنٹیئر پوسٹ لاہور، روزنامہ ’’میدان‘‘ پشاور کے ماہ و سال میں شیخ صاحب کا ایک اور جوہر کھلا وہ نثر نگار اور شاعر و کالم نویس ہونے کے ساتھ اعلیٰ پائے کے نیوز ایڈیٹر تھے۔ ان کی بنائی ہوئی سرخیوں اور نظرثانی شدہ خبروں نے صوبہ سرحد (اس وقت) اب خیبر پختونخوا میں دھوم مچادی۔
اچھے بھلے بُرے اور استحال زدہ کئی برس ہم نے اکٹھے بیتائے۔ 1980ء کی دہائی کے آخری برسوں میں جب وہ ماہنامہ ’’زنجیر‘‘ کے ایڈٹیر تھے ان کے ساتھ کام کرنے کا پہلا موقع تھا۔ میں ’’رضاکار‘‘ میں روزمرہ کا کام ختم کر کے ریلے ہائوس میں واقع زنجیر کے دفتر پہنچ جاتا۔ اس عرصے میں ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔
خصوصاً سیاسی انٹرویوز کے قرینے سلیقے انہوں نے ازبر کرائے۔ سوال کتنا مختصر ہونا چاہیے اور جواب کتنی سطروں کا یہ ’’گُر‘‘ انہوں نے سکھایا۔
انہی دنوں میں نے انہیں استاد مکرم کہنا لکھنا شرع کیا۔ وہ ہنس کر کہتے ’’یار شاہ جی کیوں شرمندہ کردے او‘‘۔ شاہ جی کو انہوں نے کب سے مرشد کہنا شروع کیا یہ یاد نہیں البتہ میری ایک تصنیف ’’پورا سچ‘‘ کی اشاعت کے بعد ایک دن کہنے لگے ’’مرشد تہاڈے اندر پیر بلھے شاہؒ دا ٹھکانہ ہیوے ‘‘۔ (میری ایک اور تصنیف ” یہ عشق نہیں آساں ” کیلئے لکھا ان کا پیش لفظ بھی ایک زندہ تحریر ہے) ،
شیخ صاحب جیسے صاحبِ علم استاد کے یہ الفاظ مجھ طالب علم کے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں۔
شیخ صاحب خود بھی مرشد سیدی بلھے شاہؒ کے عاشق صادق تھے۔ خالی خولی عاشق نہیں ایسے عاشق کہ ان کی اپنی زندگی کے ماہ و سال کے ساتھ فہم و ادراک پر بھی بلھے شاہ کی فکر کے اثرات بہت گہرے اور نمایاں رہے۔
پنجابی کے صوفی شعرا، تصوف اور ذیلی مضامین کے ساتھ صوفی ازم پر انہوں نے جتنا پنجابی زبان میں لکھا وہ پنجابی ادب کا گراں قدر سرمایہ ہے۔ وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے تھے۔ بلھے شاہؒ کے عاشق تھے اس لئے زندگی اور سماجی معاملات میں سچے اور اُجلے ترقی پسند رہے۔ دنیا طلبی سے دامن بچاکر رکھا۔
میں اکثر انہیں تنگ کرتا اور کہتا ’’چنگے استاد او نہ آپ کمایا نہ سانوں کمان دے گُر دسے‘‘۔ وہ ایک قہقہہ لگاتے اور کہتے، چنگا مرشد، "میں ہن تیرے دادے چاچے پیر بلھے شاہؒ نوں ملن گیا تے اوتھے کہہ آواں گا کہ مرشد کمائی دے گُر پچھدا جے تسیں دسو میں انوں دس دیاں گا‘‘۔
سال سوا سال قبل کی بات ہے ایک دن ان کا فون آیا ، کہنے لگے مرشد میں سوچ رہا ہوں ہماری کبھی لڑائی کیا تلخی تک کیوں نہیں ہوئی۔ میں نے عرض کیا، استاد جی آپ بڑے انسان ہیں غلطیوں اور کجوں کو درگزر کرتے ہیں اس لئے ، کہنے لگے نہیں اصل میں مرشد پیر بلھے شاہؒ کی محبت نے گرمی سردی تلخیوں وغیرہ سے محفوظ رکھا ہمیں۔
اکرم شیخ ایک سچل اور باعمل ترقی پسند تھے دیہی سماجی سے گندھے خمیر سے بغاوت نے انہیں سفر حیات میں مشکلات و مسائل سے دوچار کیا لیکن وہ ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھتے رہے۔ ان کی زندگی سے جتنا ایک دوست اور بھائی کے طور پر میں واقف ہوں اس زندگی کے دو ہی مقصد تھے، اپنے بچوں خصوصاً بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانا تاکہ وہ زندہ شعور کے ساتھ سفر حیات طے کریں اور ہر لمحہ کچھ نہ کچھ سوچتے اور لکھتے رہنا۔ سچ یہ ہے کہ دونوں کام انہوں نے خوش اسلوبی سے کئے۔
پچھلے 38، 39برسوں میں ہمارے درمیان سینکڑوں بار مختلف موضوعات پر مکالمہ ہو، جب بھی مکالمہ ہوتا وہ علم کے موتی لٹاتے چلے جاتے۔ ان کا تقابلی مطالعہ بے پناہ تھا۔
کئی برس تو ایسے ہی گزرے کہ ہم موسم کی پروا کئے بغیر روزانہ کئی گھنٹے لاہور پریس کلب کے صحن میں ایک درخت کے نیچے گھنٹوں محفل جمائے بیٹھے رہتے۔ عموماً اس محفل کا اختتام اس وقت ہوتا جب شیخ صاحب کے گھر سے فون آتا۔ میں انہیں چھیڑنے کے لئے کہتا ’’استانی جی ہوراں جواب طلبی کیتی اے‘‘۔ ہنستے ہوئے کہتے ’’نئیں مرشد تہاڈی بھتیجی دا فون سی اوندیاں شیواں لے کے گھر جانیا سن اودا پچھ رئی سی‘‘۔
شیخ صاحب سفر حیات طے کرکے چلے گئے۔ 38، 39 برسوں کی یادوں کا دفتر کھلا ہوا ہے۔
ان میں سے جو چند برس ہم نے پشاور میں اکٹھے ملازمت کرتے ہوئے بیتائے ان کی یادیں بے حساب ہیں۔ ان دنوں (قیام پشاور کے) وہ روزانہ کی بنیاد پر اپنے بچوں کے لئے کچھ نہ کچھ خرید کر لاتے رہتے تھے۔
کبھی کبھی میں ان سے کہتا تھا، ’’شیخ صاحب لگدا وے تساں بالاں (بچوں) دے پیو نئیں عاشق او‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کہتے اچھا ہن فاطمہ دا فون آیا تے میں تینوں دساں گا۔
ایک شفیق و مہربان دوست صاحب مطالعہ استاد، بڑے بھائی، ترقی پسند قلم مزدور اور اولاد کے عاشق باپ کا سفر حیات تمام ہوا، مجھے یقین ہے کہ اب وہ مرشد سیدی بلھے شاہؒ سے محفل کررہے ہوں گے۔
اس امر کا بھی احساس ہے کہ استاد مکرم برادر بزرگ اکرم شیخ کا حق ادا نہیں ہوپایا یادیں اور باتیں بہت ہیں۔ زندگی نے مہلت دی تو تذکرہ ہوتا رہے گا۔ حق تعالیٰ مغفرت فرمائے، طمع اور جمع سے محفوظ رہ کر سفر حیات طے کرنے والے سفید پوش قلم مزدور اکرم شیخ کی ،
ایک مردِ آزاد تھا جو نہیں رہا۔