کالمزناصف اعوان

شبنمی سویر‘ ہماری منتظر !….ناصف اعوان

امیدیں دم توڑ رہی ہیں کہنا مگر سرکار کا یہ ہے کہ فکر کی کوئی بات نہیں سب ٹھیک ہو جائے گا بس انت کرو

محبت ‘ مساوات اور انصاف ہی سے ذہنوں کو تسخیر کیا جا سکتا ہے مگر چونکہ ابھی تک ہم آموزش کے دور سے گزر رہے ہیں لہذا ان چیزوں پر توجہ دینےکے بجائے روایتی طرز عمل کو اختیار کیے ہوئے ہیں ۔
پھر ہو یہ رہا ہے کہ لوگوں میں انتقام اور نفرت کے جذبات پیدا ہو رہے ہیں جن کی نشان دہی اوپری اور نچلی دونوں سطح پر کی جا رہی ہے اس حوالے سے مذاکرے اور مباحثے بھی ہو رہے ہیں ۔سرکاری لوگ بھی اپنے بیانات اور تقاریر میں ان رحجانات کا ذکر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر عملاً کچھ نہیں کر رہے ۔
ظارامیدیں دم توڑ رہی ہیں کہنا مگر سرکار کا یہ ہے کہ فکر کی کوئی بات نہیں سب ٹھیک ہو جائے گا بس انت کرو ۔یہ انتظار اٹھہتر برس سے ہو رہا ہے مگر ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا اب تو ہماری بیزاری و اکتاہٹ میں بھی اضافہ ہونے لگا ہے کیونکہ حالات کی ایک زنجیر ہے جو طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے اس کے باوجود وہی باتیں ‘ حوصلہ رکھیں ہم بہت کچھ تمھاری فلاح کے لئے کر رہے ہیں ۔جی ! ہر کسی پر قرضہ چڑھتاچلا جا رہا ہے غربت کسی آکاس بیل کی مانند بڑھتی جا رہی ہے ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے مگر ہمارے کرتادھرتاؤں کے گھروں میں مکمل چانن ہے ان میں خوشحالیوں کے دیپ جل رہے ہیں ‘ روشنیاں رقص کر رہی ہیں بہاریں رنگ بکھیر رہی ہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ جہاں روٹی کو بچے بوڑھے ترس ترس جا رہے ہوں وہاں کیا منظر ہوتا ہے ؟
گئے دنوں کا قصہ ہے کہ جب زندگی اس قدر دُکھی نہیں تھی جتنی آج ہے قانون کی حکمرانی کا مذاق جو آج اڑایا جا رہا ہے پہلے کبھی نہیں تھا دھوکا فریب اور لوٹ مار کا بازار بھی اتنا گرم نہیں تھا ۔لوگ اعتماد ویقین کے ساتھ رہتے تھے ۔ سہولتیں ناکافی ہونے کے باوجود بھی پریشان نہیں تھے۔ اب جب یہ کہا جاتا ہے کہ لوگوں کو اس آنے جانے علاج معالجے اور تعلیم کی جو سہولتیں میسر ہیں کیا پچھلے دور سے بہتر نہیں ؟وہ یہ بھی بتائیں کہ اب جب ان کے نزدیک سہولتیں موجود ہیں تو جسموں میں توانائی کہاں ہے سکون کدھر ہے بیماریاں اُمڈ اُمد آرہی ہیں جن پر جدید طب بھی قابو نہیں پا رہی ۔غذائیں گویا زہر میں تبدیل ہوتی جارہی ہیں کہتے ہیں نئی ٹیکنالوجی شعور میں اضافے کا سبب بنتی ہے مگرہمیں اس شعور نے ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے انسانیت کے جذبے سے محروم کر دیا ہے ؟ سچ یہ ہے کہ” لنگھیا ویلا“ (گزرا ہوا وقت) بہت یا د آتا ہے کہ وہ بہت سہانا تھا اس میں مروت اصول اور ایک رکھ رکھاؤ تھا مگر اب وہ سب ناپید ہے۔اس کی جگہ چالاکیوں دھوکا بازیوں ‘ ریا کاریوں اور چھینا جھپٹیوں نے لے لی ہے ۔نجانے لوگ کیوں یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو زندہ نہیں رہیں گے ۔ افسوس تو یہ بھی ہے کہ وہ ان خرابات و خرافات سے نجات حاصل کرنے کی خواہش بھی نہیں کر رہے چند فیصد ایسے ہیں جو سماج کو اصول پسند اور روشن دیکھنا چاہتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک چلے گا ؟
اس طرح تادیر نہیں ہو سکتا کیونکہ ایک جیسے نظام میں رہنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے لہذا اسے بدلنا ہو گا !
اگرچہ ”سٹیٹس کو“ کو برقرار رکھنے والے طبقات نہیں چاہتے کہ موجودہ نظام تبدیل ہو لہذا وہ پورا زور لگا رہے ہیں اسے بچانے کے لئے طرح طرح کے قوانین بنائے جارہے ہیں اسے محفوظ و مستحکم بنانے کے لئے مگر عوام میں جو شعور کی لہر ابھر چکی ہے اب وہ بیٹھنے والی نہیں لہذا وہ وقت بیت گیا جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے ۔ دنیا میں وہ نظام باقی نہیں رہے جنہیں لوگ ناپسند کرتے تھے مگر یہاں ان میں عوام موافق تبدیلی لانے سے گریز کیا جارہا ہے انہیں اسی کو تسلیم کرنے پر زور دیا جا رہا ہے مگر کب تک ؟
حالیہ اٹھان سے ظاہر ہے کہ جو لاوہ پک رہا تھا اب وہ اُبل رہا ہے اسے لمبے عرصے تک روکنا ممکن نہیں ۔ لوگوں کی آنکھیں اچھے دنوں کی راہ تکتے تکتے تھک گئی ہیں مگر ابھی تک ان پر حرص و ہوس کے سائے پڑے ہوئے ہیں جو ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرے ہوتے جا رہے ہیں مگر انہیں ہٹنا ہی ہے یہ اہل اختیار کو مغالطہ ہے کہ وہ طاقتور ہیں لہذا عام کو خاص نہیں ہونے دیں گے ؟ ماضی میں جتنے بھی جاہ وجلال والے بادشاہ ہوئے ہیں وہ بھی اسی طرح سوچتے تھے اسی طرح اپنی رعایا سے برتاؤ کرتے تھے جس طرح آج کے بااختیار کر رہے ہیں مگر آخر کار سٹیٹس کو ٹوٹ گئی ۔ہماری اپنی تاریخ سے ثابت ہے کہ یہاں جو بھی آیا اس نے اپنی طاقت پر ناز کیا مگر پھر وہ اس سے محروم بھی ہو گیا ۔بہرحال چونکہ ہمارے بڑے خود کو عقل کل سمجھتے ہیں اس لئے ہم جو بپتا سناتے ہیں اسے کم ہی سنتے ہیں ۔ چلیں وہ عقل کل ہیں تو پھر ملک کی معاشی حالت دگر گوں کیوں ہے ؟ یہ کہ بنیادی مسائل کی گمبھرتا سے لوگ کیوں خود کشیاں کر رہے ہیں اور جسم بیچ رہے ہیں اب اگر عوام کی عقل بھی استعمال کرکے دیکھ لی جائے تو یقیناً اس سے فائدہ ہو گا مگر شاید فائدہ اچھی چیز نہیں ہوتی ؟
حقیقت یہ کہ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ وہ کیا کرے کیا نہ کرے ۔ ایک دوسرے پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ تم نے حالات خراب کیے معیشت برباد کی وغیرہ وغیرہ جبکہ سبھی قصور وار ہیں اور اب جب لوگ دہائی دے رہے ہیں تو وہ بھی انہیں گوارا نہیں؟
پاکستان اس لئے تو وجود میں نہیں آیا تھا کہ اس میں لوگوں کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا جائے گا انہیں بولنے کی آزادی نہ دی جائے ان کو غربت کی چکی میں پیسا جاتا رہے؟ ایسا ہر گز نہیں سوچا گیا تھا مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک طبقہ حکمرانی کے مزے بھی لوٹ رہا ہے اور دولت کے ڈھیر بھی لگائے جا رہا ہے اور اس کے ڈھیر یہاں بھی ہیں اور باہر بھی ۔احتساب کی بات ہوتی ہے تو وہ سو طرح کی کہانیاں سنانے لگتا ہے اور اپنی ساری کمائی کو جائز قرار دے دیتا ہے ؟
اندھیر نگری چوپٹ راج !
صرف حکمرانوں نے ہی اندھیر نہیں مچا رکھا سماجی سطح پر بھی حالت ٹھیک نہیں بلکہ تشویش ناک ہے یقین کیجئے کسی کو کسی پر بھروسا نہیں ” چٹے دن“ دھوکا دہی لوٹ مار اور سینہ زوری ہو رہی ہے اس سماجی تباہی کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ وہ مقام قریب ہے جہاں پہنچ کر آگے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا پھر ایک نیا راستہ دکھائی دیتا ہے جو کسی بڑی تبدیلی کی طرف لے جاتا ہے جس میں رویوں سے لیکر طرز حیات تک سب بدل جاتا ہے لہذا ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ کالی رات ختم ہونے کے قریب ہے جنہوں نے جتنا ہتھیانا تھا ہتھیا لیا۔ سماج میں جو بگاڑ آنا تھا آچکا اب شبنمی سویر ہماری منتظر ہے !

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button