بین الاقوامیتازہ ترین

مشرق وسطیٰ میں خطرات، اسرائیل کو امریکی دفاعی نظام دیے جانے پر غور

اسرائیلی اخبار ' ٹائمز آف اسرائیل' کی رپورٹ کے مطابق اس کے نمائندے کو امریکی حکام نے بتایا ہے کہ صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ نے اس بارے میں غور شروع کر دیا ہے

امریکی حکام نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ امریکی انتظامیہ اسرائیلی دفاعی نظام کو مزید موثر بنانے کے لیے امریکی ساختہ دفاعی نظام ‘ ٹی ایچ اے اے ڈی ‘ دینے پر غور کر رہی ہے تاہم ابھی اس بارے میں حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔ یہ غور اسرائیل کو درپیش موجود صورت حال کے پیش نظر ہے۔ ٹرمینل ہائی آرٹیٹیوڈایئر ڈیفنس ‘ جدید ترین ہے۔
اسرائیلی اخبار ‘ ٹائمز آف اسرائیل’ کی رپورٹ کے مطابق اس کے نمائندے کو امریکی حکام نے بتایا ہے کہ صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ نے اس بارے میں غور شروع کر دیا ہے ، تاکہ اسرائیل کو ‘ٹرمینل ہائی آرٹیٹیوڈ ایئر ڈیفنس’ بھی دیا جا سکے۔ البتہ اس بارے میں حتمی فیصلہ کیا جانا باقی ہے۔
اس سے پہلے ایسی کئی رپورٹس آ چکی ہیں جن میں کہا گیا تھا ۔ امریکہ یہودی ریاست کو محفوظ بنانے کے لیے’ اینٹی بیلسٹک میزائل سسٹم ‘دے گا اور اس سسٹم کو چلانے کے اسرائیل میں اپنے فوجی بھی تعینات کرے گا۔ اب بتایا جا رہا ہے یہ ساری تیاری اسرائیل کی طرف سے ایران پر جوابی حملے کے سلسلے میں ہے تاکہ ایرانی جوابی کارووائی میں اسرائیل کو نقصان نہ ہو۔
یہ بھی اہم ہے کہ ‘ ٹرمینل ہائی آرٹیٹیوڈ ایئر ڈیفنس’ اسرائیل کو بھجوانے کے لیے امریکی فوجی دستوں کو اسرائیل کے اندر تعینات کرنا پڑے گا۔ اس سے پہلے تقریباً ایک سال ہو چکا ہے جب امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اس سسٹم کو مشرق وسطیٰ میں منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔ نیز اس کے ساتھ امریکی پٹریاٹ میزائل سسٹم کی اضافی بیٹریاں بھی لگانے کا کہا گیا تھا، اس کا مقصد خطے میں امریکی فورسز کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو تحفظ دیا جانا تھا، مگر اس بارے میں اب عملی پیش رفت کی توقع کی جارہی ہے۔
اپریل میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کے پاس اس جدید دفاعی نظام کی سات یبٹریاں ہیں۔ ایک بیٹری کے نصب کیے جانے کے لیے عام طور پر چھ ٹرکوں کو لادا جاتا ہے۔ جن پر 48 انٹر سیپٹر، ریڈیوز اور اسی طرح ریڈارز نصب کیے جاتے ہیں۔
جبکہ اس سسٹم کو چلانے کے لیے 95 ماہر فوجیوں کا دستہ بھی ہمراہ ہوتا ہے۔ یہ سسٹم امریکی پیٹریاٹ سسٹم سے بھی جدید شکل ہے۔ جس کے ذریعے 150 کلو میٹر سے 200 کلو میٹر تک کی رینج سے دشمن کے ہدف کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button