اہم خبریںپاکستان

خصوصی کمیٹی کا اجلاس: آئینی ترمیم پر پی ٹی آئی کی سیاسی جماعتوں سے تلخ کلامی

پیر کو سید خورشید شاہ کی زیر صدارت خصوصی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں حکومتی اتحادی جماعتوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے بھی شرکت کی ہے۔

مجوزہ آئینی ترامیم کے معاملے پر پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا ایک اور اجلاس بے نتیجہ ختم ہو گیا ہے جس کے بعد سیاسی جماعتوں میں آئینی ترامیم پر اتفاق رائے کا معاملہ مزید طول پکڑ گیا ہے۔
موجودہ صورتحال کے بعد پارلیمانی حلقوں کا بتانا ہے کہ اب قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس بلائے جانے میں بھی مزید تاخیر ہو سکتی ہے کیونکہ حکومت عددی اکثریت حاصل ہونے پر ہی اجلاس بلانے کے حق میں ہے۔ تاہم حکومت اب بھی مجوزہ آئینی ترامیم پر نمبرز گیم پورا کرنے کے لیے پراُمید نظر آتی ہے۔
پیر کو سید خورشید شاہ کی زیر صدارت خصوصی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں حکومتی اتحادی جماعتوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے بھی شرکت کی ہے۔
خصوصی کمیٹی کے ہونے والے آج کے اجلاس میں عوامی نیشنل پارٹی نے بھی آئینی ترامیم پر اپنا مسودہ پیش کر دیا ہے۔ اس سے قبل ایم کیو ایم اور جے یو آئی ف بھی آئینی ترامیم پر اپنا مسودہ پیش کر چُکی ہیں لیکن اب تک پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے مسودہ جمع نہیں کروایا گیا۔
آج کے اجلاس میں حکومت کی طرف سے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، رانا تنویر حسین، سینیٹر عرفان صدیقی نے شرکت کی جبکہ پی پی رہنما سید نوید قمر، شیری رحمان اور راجہ پرویز اشرف بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، اسد قیصر اور سربراہ سنی اتحاد کونسل حامد رضا نے اجلاس میں آن لائن شرکت کی۔ ایم ڈبلیو ایم سے علامہ ناصر عباس، اے این پی سے ایمل ولی خان، جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی سے خالد مگسی بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔

‘جلدبازی نہیں کرنی چاہیے’
پارلیمنٹ کی کارکردگی پر نظر رکھنے والے ادارے ‘فافن’ کے نیشنل کوآرڈنیٹر عبدالرشید چوہدری کہتے ہیں کہ آئینی ترمیم کی منظوری میں جلدبازی نہیں کرنی چاہیے۔
آئینی ترمیم روز روز نہیں ہوتی، لہذٰا اس کے لیے سیاسی اتفاقِ رائے ضروری ہے۔
اُن کے بقول نگراں حکومت کی مدت اور انتخابی اصلاحات کو بھی شامل کر کے اٹھارہویں ترمیم کی طرح ایک جامع آئینی پیکج آنا چاہیے۔
گزشتہ ماہ 16 ستمبر کو آئینی ترمیم منظور کرانے میں ناکام ہونے کے بعد حکومتی اتحاد کی جانب سے مسلسل آئینی ترمیمی بل کی منظوری کے لیے سیاسی پارٹیوں خاص طور پر جے یو آئی، سول سوسائٹی اور وکلا سے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔
پیپلزپارٹی آئینی ترمیم کا ڈرافٹ جے یو آئی کو پیش کر چکی ہے جس کو عوام کے لیے بھی پیپلزپارٹی کی جانب سے جاری کر دیا گیا ہے۔ جے یو آئی نے بھی آئینی ترمیمی بل کا ڈرافٹ پیپلز پارٹی کو دے دیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری یہ دعویٰ کر چکے ہیں کے حکومت کے پاس آئینی ترمیم کے لیے نمبرز پورے ہیں۔

قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن
قومی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیمی بل کی منظوری کے لیے 224 اراکین کی حمایت درکار ہے مگر قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں اس وقت حکمراں اتحاد میں شامل پارٹیوں کے اراکین کی مجموعی تعداد 215 ہے۔
ان میں مسلم لیگ (ن) کے 111، پاکستان پیپلز پارٹی کے 70، ایم کیو ایم کے 22، مسلم لیگ (ق) کے پانچ استحکام پاکستان پارٹی کے چار، مسلم لیگ ضیا، باپ، اور نیشنل پارٹی کا ایک ایک رکن شامل ہے۔
آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے والے عادل خان اور مسلم لیگ (ق) میں شامل ہونے والے الیاس چودھری کا آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کا امکان نہیں ہے۔ ان ارکان نے بجٹ کے موقع پر بھی حکومت کو ووٹ نہیں دیا تھا۔ دونوں اراکین کی نااہلی کے لیے اسپیکر کے پاس ریفرنس بھی جمع کرا دیا گیا ہے۔
ان دونوں اراکین کو مائنس کرنے کے بعد حکمران اتحاد کے مجموعی اراکین کی تعداد 213 ہو جاتی ہے۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے ذرائع کے مطابق آئینی ترمیم میں اسپیکر بھی ووٹ کاسٹ نہیں کر پائیں گے۔ یوں حکمراں اتحاد کے پاس 212 ووٹ ہیں۔ اگر جمعیت علمائے اسلام کے آٹھ ووٹ بھی مل جائیں پھر بھی حکومت کو چار مزید ووٹ درکار ہوں گے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ آرٹیکل تریسٹھ اے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب منحرف رُکن کا ووٹ کاسٹ ہو سکے گا۔ لہذٰا حکومت کے پاس تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ ارکان کے ووٹ توڑنے کا آپشن ہو گا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button