کالمزناصف اعوان

پو پھوٹنے والی ہے….ناصف اعوان

ڈبو دیا ان سفینوں کو جو منزل کی جانب رواں تھے مگر مایوسی جائز نہیں ماضی تلخ سہی کل نرم و گداز ہے حسیں ہے کیونکہ ذہنوں میں کچھ تازہ سوچیں جنم لینے لگی ہیں پرانے دوست تبدیل کرنے کی خیال امڈ آیا ہے ؟

اگر یہ کہا جائے کہ ہم تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہے ہیں تو غلط نہ ہو گا !
کوئی بے حسی ہے کوئی سینہ زوری ہے اور کوئی بد دیانتی ہے ؟
ہم کسی ایک کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتے کہ ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں مگر اہل اقتدار جن کے پاس اختیارات تھے وسائل تھے پوری مشینری تھی حالات کو بہتر بنانے کے بجائے ان سے چشم پوشی اختیار کرتے رہے ۔ہم عوام قصور وار اس لئے ٹھہرے کہ ان کی توجہ مبذول کروانے میں ناکام رہے ۔ ان کی طویل عمری و تندرستی کی دعائیں مانگتے رہے مگر ان کا فرض کیا ہے اس بارے لبوں کو حرکت نہ دی ۔
پھر ہوا یہ ہے کہ زندگی کا ہر ایک رنگ پھیکا ہر کمزور بے یارو مددگار لوٹ کھسوٹ اور بھاگم بھاگ کا منظر دکھائی دیتا ہے ہر کسی کو اپنی پڑی ہوئی ہے دوسرا کوئی مر رہا ہے جی رہا ہے اس سے غرض نہیں؟
وقت عجیب آگیا ہے ستتر برس کے بعد بھی مصلحتوں نے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا تاریکی ہمارے تعاقب میں رہی روشنی کو نگلتی رہی غربت و عسرت کے عفریت نے اپنے جبڑے کھولے رکھے بیماریاں بڑھتی گئیں پھر ان میں پی پیچیدگیاں آتی گئیں کسی نے انہیں آگے بڑھ کر نہیں روکا !
سبھی اپنے اپنے مفادات کی زنجیر سے بندھے رہے ذرا سی جنبش ذرا سی ہمدردی کسی میں بھی پیدا نہیں ہوئی ہوتی بھی کیوں‘ جب دولت کے انبار لگانے اور اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہوں تو اجلے خیالات کی کہکشائیں کہاں سے ابھرتی ہیں خوابوں کی سر زمین میں پھول کہاں کھلتے ہیں ان پر شبنم کے قطرے کہاں ڈھلکتے ہیں اور پھر طلوع ہوتے سورج کا نظارہ اور پرندوں کی اٹھکیلیاں کہاں نظر آتی ہیں ؟
ڈبو دیا ان سفینوں کو جو منزل کی جانب رواں تھے مگر مایوسی جائز نہیں ماضی تلخ سہی کل نرم و گداز ہے حسیں ہے کیونکہ ذہنوں میں کچھ تازہ سوچیں جنم لینے لگی ہیں پرانے دوست تبدیل کرنے کی خیال امڈ آیا ہے ؟
ہم لوگ جزباتی بھی ہیں جسے تسلیم کر لیتے ہیں اس کی ہر خطا معاف کر دیتے ہیں وہ ہمارے جسموں میں سو چھید بھی کر دے تو سی نہیں کرتے اپنی فراخ دلی کا بھرم ہر صورت قائم رکھتے ہیں اسی لئے تو رسوا ہو رہے ہیں کوئی ہماری صدا کوئی چیخ اور کوئی ہماری داستان الم سننے کو تیار نہیں لہذا دکھوں میں گِھرے ہوئے ہیں ۔خزانہ ہمارا خالی ہے بھرنا اسے دولت مندوں کی دولت سے چاہیے جو دھیرے دھیرے ہمارے قومی وجود کو گھیر رہے ہے ہیں بلکہ گھیر چکے ہیں بد عنوانی کا اژدھا بھی تو اسی لئے توانا ہوا جسے قابو کرنا اب کسی کی بس کی بات نہیں ۔نئے سویرے کی نوید مگر دی جا رہی ہے ایک مدت سے کہ بُرے دن بیت گئے نکھری اُجلی چمکیلی صبح بس اب گلشن میں نمودار ہونے ہی والی ہے کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ راہزنوں نے روپ بدل لئے ہیں جو راہیوں کو ڈرا کر نہیں پیار سے لوٹ رہے ہیں ۔ہمیں بنارسی ٹھگوں کی تاریخ یاد آرہی ہے کہ وہ لوگ میٹھی میٹھی باتیں کرکے کسی کواپنے جال میں پھنسا لیتے تھے بالکل اسی طرح آج ہو رہا ہے لہذا ان کی باتوں پے نہ جائیو کہ یہ پتا بی نہیں لگنے دیتے کہ بندہ لُٹ جاتا ہے مگر بات وہی کہ جو ہم اکثر عرض کرتے رہتے ہیں کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے ؟
یہاں تو وہ آوازیں سنی جاتی ہیں جو ردھم کے ساتھ فضاؤں میں ابھرتی ہیں ۔کیا ہو گیا زمانے کو کیوں اعصاب جواب دے گئے کیسے ہوا یہ سب ؟ کوئی بھی تو اس کا جواب نہیں دے رہا بس کہے جارہا ہے کہ خوشحالی و خوشیاں آنے ہی والی ہیں بیتے لمحات ایسے میں بہت یاد آتے ہیں اچھے تھے وہ دن جب سہولتوں کا فقدان تھا مگر اطمینان تھا خلوص تھا۔ دُکھ ایک تھے سُکھ بھی سانجھے تھے ۔ احترام آدمیت تھا اب جب نئی نسل کا بتایا جاتا ہے تو وہ حیران ہوتی ہے۔ اسے یقین ہی نہیں آتا پھر وہ کہتی ہے کہ جانے دو وہ زمانہ گزر گیا اس میں کیا تھا مصائب ہی مصائب تو تھے مگر یہ درست نہیں موجودہ دور کے لوگ تنہا ہوتے جارہے ہیں انہیں اپنی منزل بھی دکھائی نہیں دیتی ان کے پہلو میں بیٹھنے کو کوئی تیار نہیں ۔حیات ‘ بیاباں سی ہوگئی ہے ۔بھوکوں کوئی مرتا ہے تو مرے ۔ پہلے کبھی یہ نہیں تھا ہر گھر میں اناج تھا رونق تھی روشنی تھی جو دلوں کے دیپ جلنے سے ہوتی ۔اب شاید بدلی ہوئی سوچ نے مشکلات کے صحراؤں کو آواز دی ہے اور مںافقت کی زہریلی روئیں بہنے لگی ہیں جس کے ساتھ چند روز گزارا وہ منہ پھیر لیتا ہے ۔اکتاہٹ اور بیزاری نے رگوں میں اتر کر نظام زندگی کو تہ و بالا کر دیا ہے ۔ یہ کوئی جینا ہے یہ کیسا طرز عمل ہے ۔ ہوش اب بھی نہیں آرہا کہ افراتفری و بے چینی نے اپنے پّر چاروں طرف پھیلا دیئے ہیں ۔ڈاکو دن دیہاڑے ڈاکے مار رہے ہیں ۔جو بھی طاقتور ہے لوگوں کو محکوم بنانے کے درپے ہے وہ اپنے آپ کو منوانے پر تُل گیا ہے تباہی کا سامان ہے یہ !
ہمیں کوئی یہ بتائے کہ جب بڑے بڑے منصوبے تیار ہو رہے ہیں اور جو اب تک کیے بھی جا چکے ہیں کیوں ہماری اجتماعی زندگیوں میں بہار نہیں لا سکے. کس لئے یہ وفود ملکوں ملکوں آتے جاتے ہیں ؟
حالت معاشی بدل رہی ہے نہ سماجی ۔ عرض ہے کہ اگر بڑھتے ہوئے بگاڑ کو کوئی روک سکتا ہے تو روک لے وگرنہ کون کسے پہچانے گا؟
یہ دھرتی ہم سب کی ہے اس کے وسائل بھی مشترک ہیں اس کی حفاظت بھی ہماری ذمہ داری ہے تو پھر مستقبل کے فیصلے مخصوص لوگ کیوں کریں ؟ہمیں کیوں ان میں شامل نہیں کیا جاتا کیوں ہم سے ہماری مرضی نہیں پوچھی جاتی ؟ افسوس کہ ابھی بھی عقل کا آنگن خالی ہے ۔ وہی دولت کی ہوس اور وہی عوام کو تقسیم کرکے تجوریاں بھرنے کی حکمت عملیاں مگر اب ایسا نہیں ہو گا کیونکہ جب بھی کوئی چیز حد سے آگے نکلتی ہے تو تبدیل ہو جاتی ہے اور اب سب کچھ آگے نکل گیا ہے تو ہمیں یقین ہے کہ پو پھوٹنے والی ہے !!

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button