اہم خبریںبین الاقوامی

یحییٰ سنوار جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں اسرائیلی فورسز سے اچانک تصادم کے نتیجے میں ہلاک،جنگ جاری ہے

غزہ جنگ کے ایک سال میں کم از کم 42 ہزار فلسطینی ہلاک ہوئے جبکہ غزہ کا اکثریتی علاقہ تباہ و برباد اور ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے

اُن کی موت حماس کے لیے ایک سنگین دھچکا ہے۔ سنوار نے حماس کو ایک جنگی قوت میں تبدیل کیا اور اُن ہی کی بدولت حماس نے اسرائیل کی ریاست کو اُس کی تاریخ کی سب سے بڑی ناکامی سے ہمکنار کیا تھا، یعنی 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے چونکا دینے والے حملوں کی صورت میں۔
سنوار اسرائیلی سپیشل فورسز کی جانب سے کیے گئے ایک سوچے سمجھے آپریشن میں ہلاک نہیں ہوئے بلکہ جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں اسرائیلی فورسز سے اچانک تصادم کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔
جائے وقوعہ پر بنائی گئی ایک تصویر میں جنگی لباس میں ملبوس سنوار کو ایک تباہ حال عمارت کے ملبے میں مردہ حالت میں دکھایا گیا۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے اپنے فوجیوں کی تعریف کی اور واضح کیا کہ سنوار کی ہلاکت کتنی ہی بڑی فتح ہو مگر ’یہ جنگ کا خاتمہ نہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’آج ہم نے ایک بار پھر واضح کیا کہ ہمیں نقصان پہنچانے والوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ آج ہم نے ایک بار پھر دنیا کو برائی پر اچھائی کی جیت دکھا دی۔‘
’جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ مشکل ہے اور اس کی ہمیں بہت بڑی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔‘
نیتن یاہو کے مطابق ’بڑے چیلنجز ابھی بھی ہمارے سامنے ہیں۔ ہمیں برداشت، اتحاد، ہمت اور ثابت قدمی کی ضرورت ہے۔ ہم مل کر لڑیں گے، اور خدا کی مدد سے مل کر جیتیں گے۔‘
نیتن یاہو اور غزہ میں جنگ کی حمایت کرنے والے اسرائیلیوں کو اِس فتح کی ضرورت تھی۔
وزیر اعظم نیتن یاہو نے بارہا جنگ سے متعلق اپنے مقاصد ظاہر کیے ہیں: یعنی حماس کو بطور عسکری اور سیاسی قوت تباہ کرنا اور اسرائیلی یرغمالیوں کی گھر واپسی۔
بظاہر اس جنگ میں اب تک یہ دونوں مقاصد حاصل نہیں ہو سکے ہیں۔ غزہ جنگ کے ایک سال میں کم از کم 42 ہزار فلسطینی ہلاک ہوئے جبکہ غزہ کا اکثریتی علاقہ تباہ و برباد اور ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔
ابھی بھی کئی اسرائیلی یرغمالی آزاد نہیں ہو سکے ہیں۔ حماس کی طرف سے لڑائی جاری ہے اور وہ بعض اوقات اپنی کارروائیوں میں اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کر دیتے ہیں۔
سنوار کی ہلاکت وہ فتح ہے جو اسرائیل چاہتا تھا تاہم نیتن یاہو یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ جنگ کے دیگر اہداف حاصل ہو چکے ہیں تاہم اُن کے مطابق جنگ ابھی بھی جاری رہے گی۔
یحییٰ سنوار غزہ کی پٹی کے علاقے خان یونس میں 1962 میں پیدا ہوئے۔ مشرق وسطیٰ کی 1967 کی جنگ کے دوران اسرائیل نے مصر سے اس علاقے کا قبضہ حاصل کیا تو اُس وقت سنوار کی عمر محض پانچ برس تھی۔
سنہ 1948 کی جنگ میں اُن کا خاندان اُن سات لاکھ فلسطینیوں میں سے تھا جنھیں اسرائیلی فورسز نے گھروں سے بے دخل کیا یا نقل مکانی پر مجبور کیا۔
اُن کے خاندان کا تعلق عسقلان سے تھا جو غزہ کی پٹی میں شمالی سرحد کے قریب واقع علاقہ ہے۔
نوجوانی میں انھیں چار فلسطینی مخبروں کے قتل کے الزام میں اسرائیل میں سزا ہوئی تھی۔
جیل میں 22 سال قید کے دوران انھوں نے عبرانی زبان سیکھی، اپنے دشمن کا بغور مطالعہ کیا اور یہ سوچنے لگے کہ انھوں نے اسرائیل سے لڑنا سیکھ لیا ہے۔
اسرائیل کے پاس ان کا ڈینٹل (دانتوں کا) ریکارڈ اور ڈی این اے کے نمونے تھے جس کی بدولت انھوں نے سنوار کی میت کی شناخت کی۔
سنوار اُن ایک ہزار سے زیادہ فلسطینیوں میں سے تھے جنھیں سنہ 2011 میں قیدیوں کے تبادلے کے دوران ایک اسرائیلی فوجی کے بدلے رہا کیا گیا تھا۔
7 اکتوبر 2023 کو سنوار اور اُن کے جنگجوؤں نے اسرائیل پر حملے کیے جو اسرائیل کی بدترین ناکامی ثابت ہوئے۔ یہ صدمہ آج بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔
1200 اسرائیلیوں کے قتل، درجنوں کا یرغمال بنائے جانا اور اس کے بعد ہونے والے جشن نے کئی اسرائیلیوں کے لیے ہولوکاسٹ کی یاد تازہ کر دی تھی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button