حیدر جاوید سیدکالمز

آزاد عدلیہ ” انقلابی رشتہ دار و فرنچائزی ” …. حیدر جاوید سید

یوسف رضا گیلانی والے معاملے میں سپیکر قومی اسمبلی کے اختیارات کو روند کر آئین کی من پسند تشریح کے ساتھ نظام عدل کے چہرے پر اتنے داغ ہیں کہ انہیں دھونے کے لئے ابھی مزید ترامیم کی ضرورت پڑے گی۔

بالآخر 26ویں آئینی ترمیم ہوہی گئی۔ سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ افتخار چودھری کے دور سے نافذ کردہ جوڈیشل مارشل لاء کا خاتمہ ہوگیا۔ گو ہماری اعلیٰ عدلیہ کی تاریخ بہت زیادہ روشن کیا رتی برار بھی روشن نہیں۔ مارشل لاء کی توثیق ایک منتخب وزیر اعظم کوپھانسی اور متعدد کو دب دبہ ہائے عدالت قائم رکھنے کے لئے گھر بھیجنا۔ یہی نہیں یوسف رضا گیلانی والے معاملے میں سپیکر قومی اسمبلی کے اختیارات کو روند کر آئین کی من پسند تشریح کے ساتھ نظام عدل کے چہرے پر اتنے داغ ہیں کہ انہیں دھونے کے لئے ابھی مزید ترامیم کی ضرورت پڑے گی۔
ساعت بھر کےلئے رکئے، جو لوگ سپریم کورٹ میں سینئر ترین جج کے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ پر چیف جسٹس بن جانے کے عمل کی جگہ 26ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس کی جانب سے پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کو 3 نام بھیجنے اور ان تین میں سے ایک کی بطور چیف جسٹس تقرری کوآزاد عدلیہ پر حملہ قرار دے رہے ہیں وہ ذرا یہ بتادیں کہ کیا لاہور ہائیکورٹ کی موجودہ چیف جسٹس صاحبہ کے تقرر کو بھی آزاد عدلیہ پر جوڈیشل کمیشن کا حملہ ہی سمجھا جائے؟ سوال یہ ہے کہ محترمہ جسٹس عالیہ نیلم کو دو سینئر ترین ججز، جسٹس شجاعت علی خان اور جسٹس علی باقر نجفی کو نظرانداز کرکے کس میرٹ پر لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا؟
اچھا میرٹ کیا ہے۔ کیا جسٹس منیب اختر و جسٹس حسن رضوی اور جسٹس شاہد بلال حسن کو بالترتیب سندھ اور لاہور ہائیکورٹ سے سنیارٹی کے میرٹ پر سپریم کورٹ لے جایا گیا تھا؟ یہ دو مثالیں ہیں، ہمارے سامنے ایک مثال اوربھی ہے وہ یہ کہ جب جسٹس منیب اختر کو سندھ ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ لے جایا گیا تو اس وقت سنیارٹی کے اعتبار سے سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ان سے کہیں سینئر تھے۔ منیب اختر چوتھے نمبر پر تھے
سنیارٹی نظرانداز کئے جانے پر جب مختلف حلقوں سے آوازیں اٹھیں تو کہا گیا یہ چیف جسٹس کی صوابدید ہے۔
کیا ہمارے ہاں یہ بات بھی زبان زد عام نہیں ہوئی کہ ایک چیف جسٹس بندیال نے کہا تھا کہ میں سپریم کورٹ میں سندھی جسٹس کو نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس بدترین نسلی تعصب پر صرف چند لوگ ہی بولے۔ آزاد عدلیہ کے موسمی چاچے مامے خالو اور بھانجے بھتیجے ’’دڑوٹ‘‘ گئے۔
باتیں اور بھی بہت اور تلخیوں سے بھری ہوئی ہیں بدقسمتی سے ہمارے یہاں قوانین اور دستور اہم نہیں شخصیات اہم ہیں۔ ایک سادہ سا سوال ہے، جسٹس منصور علی شاہ کو متنازعہ کس نے بنایا بنوایا؟ کیا یہ غلط ہے کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا مجاہدین نے ان سے ایسے ایسے ارشادات منسوب کرکے پھیلائے جو ان کے فرشتوں کے بھی علم میں نہیں تھے۔ جناب منصور علی شاہ یقیناً قابل آدمی ہیں انہوں نے اپنے دور میں جب وہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے، کتنے لوگوں کو ایڈہاک جج لگوایا اور پھر ان میں سے کتنے ایک برس بعد کنفرم ہوئے اور کتنوں کو کن ’’بنیادوں‘‘ پر رخصت کردیا گیا۔ ذرا ان وجوہات بارے تقحیقاتی صحافیوں سے کہیئے کہ انہیں سامنے لائیں۔
کہا جارہا ہے کہ ’’چور مل کر قاضی مقرر کریں گے‘‘ پہلے کون سا عرش معلیٰ سے ججز تقرری کی فہرست آتی تھی۔ افتخار چودھری کی دھمکی پر 19ویں ترمیم منظور ہوئی۔ افتخار چودھری کون سا فرشتہ تھا۔ ڈیزل اور پٹرول کی پرچیوں اور میک اپ سامان کی خریداری تک کا ہی سارا رولہ نہیں تھا موصوف ایک فرقہ پرست متعصب اور کرپٹ جج تھے۔
پرویز مشرف کے پہلے پی سی او کے تحت اس نے حلف لیا تھا اس کی بحالی کی تحریک میثاق جمہوریت کے خلاف تھی لیکن اگر اس ملک میں اخبارات کی ہیڈ لائن بطور اشتہار لگوائی جاسکتی ہیں تو کچھ بھی ممکن ہے۔
کیا جنرل غلام جیلانی خان اور جنرل فیض علی چشتی سے ملاقات میں مولوی مشتاق نے چیف جسٹس بنائے جانے پر ذوالفقار علی بھٹو کونشان عبرت بنادینے کا وعدہ نہیں کیا تھا؟
مولوی مشتاق کو جب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بنایا گیا تھا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہ جسٹس صمدانی کی عدالت میں زیرسماعت تھا۔ مولوی نے چیف جسٹس بنتے ہی عدالتی طریقہ کار اور قانونی تقاضوں کو روندتے ہوئے بھٹو کا مقدمہ اپنی عدالت میں چلانا شروع کردیا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
میں آپ کو ایک بار پھر پیچھے لے جانا چاہتا ہوں۔ ماضی میں جب جسٹس منیب اختر اور جسٹس حسن رضوی کو سندھ ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ لے گئے تو سنیارٹی کے اعتبار سے دونوں جج صاحبان چوتھے اور پانچویں نمبر پر تھے۔
آزاد عدلیہ کے ’’انقلابی رشتہ دار‘‘ اس وقت خاموش رہے کیا لاہور ہائیکورٹ کی جج محترمہ عائشہ ملک صاحبہ کی سپریم کورٹ میں جج کے طور پر تقرری کس میرٹ پر ہوئی؟ عزت مآب جسٹس صاحبہ تو جونیئر تھیں کیوں ان سے سینئر ج صاحبان نظرانداز ہوئے۔
ججز ٹکسال کے فرنچائزی حامد خان وغیرہ وغیرہ تب کہاں آرام کررہے تھے کیوں نہیں بولے۔ جونیئر ججوں کی سپریم کورٹ میں تقرری سے دو مسئلے پیدا ہوئے اولاً ان سے سینئرز کی حق تلفی ہوئی ثانیاً حکمت عملی کے تحت ایک ہائیکورٹ سے جونیئر جج کی سپریم کورٹ میں تقرری کو اولیت دے کر بعد میں دوسرے ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ لائے جانے والے سینئر جج سپریم کورٹ کے قواعد کے مطابق جونیئر ہوگئے۔
چونکہ یہ سارے گھٹالے لاہور میں ججز ٹکسال کے فرنچائزیوں کی رضامندی سے ہورہے تھے اس لئے میرٹ پامال ہوا نہ عدلیہ کا وقار اور آزادی۔
ہائیکورٹس سے سپریم کورٹ میں ججز تقرری کے عمل میں افتخار چودھری اس سے قبل اور بعد میں جوکچھ ہوا اس کی وجہ سے نظام عدل کی جو ساکھ بنی اس کا اندازہ اس عالمی درجہ بندی سے لگایا جاسکتا ہے جس میں پاکستانی نظام انصاف ’’پاتال‘‘ میں ’’جلوہ افروز‘‘ ہے۔
کیا ماضی میں ایسا نہیں ہوا کہ کسی مقدمہ کی سماعت کے دوران عدالت میں زیرسماعت نہ ہونے والے معاملے پر ججز نے ازخود نوٹس لینے کی چیف جسٹس کو سفارش نہ کی ہو؟
ذرا بندیال دور کا ایک طائرانہ جائزہ لیجئے یہ حاذق حکیم سے رجوع کرنے کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہوگا۔
پاپولرازم کا شکار مختلف الخیال لوگوں ان میں قانون دان، سیاسی لوگ، صحافی، دانشوراور پیدائشی تجزیہ نگار سبھی شامل ہیں، ہر دور میں زمینی حقائق کی بجائے من پسند ترجیحات کو آگے بڑھاتے دیکھائی دیئے۔
کیا یہ درست مطالبہ نہیں تھا اور ہے بھی کہ جس جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست یا ریفرنس دائر ہو اسے فیصلے تک کام کرنے سے روک دیا جائے؟
حیرانی ہے کہ اس نکتے پر 26 ویں آئینی ترمیم کا ڈرافٹ بنانے والوں نے غور نہیں کیا۔
26ویں آئینی ترمیم کے جی بھر کے لتے لیجئے پھبتیاں کستے رہیں قانون سازی بہرصورت پارلیمان کا کام ہے سپریم کورٹ کو تشریح کا حق ہے من پسند آئین نویسی کا نہیں جیسا کہ بندیال دور میں اس سے قبل ثاقب نثار کے دور میں آئین نویسی ہوتی رہی یا آٹھ ججز کی جانب سے نظر ثانی اپیلوں کی سماعت کے بغیر جاری کی جانے والی وضاحتیں ہیں جو سپریم کورٹ کے قواعد اور خود دستور سے متصادم ہیں۔
ایک طبقہ کہہ رہا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم منصور علی شاہ کا راستہ روکنے، عدلیہ کو ایگزیکٹو کے ماتحت کرنے اور مرضی کے جج لگانے کے لئے ہے۔ ذرا پوچھئے تو یہ "وحی ” کس پر نازل ہوئی تھی کہ ’’جسٹس منصور علی شاہ نے یقن دہانی کروائی ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کو جانے دیں فروری کے انتخابات کو روند کر اس حکومت کو چلتا کردیں گے‘‘۔ اب جو فرنچائزی جھاگ اڑاتے ہوئے دھمکیاں دے رہے ہیں یہ بھی انہیں متنازع بنانے کے ذمہ داروں میں شامل ہیں
آخری بات تحریک انصاف جس نے آئینی ترمیم کے عمل کا بائیکاٹ کیا کیوں اس کمیٹی کا حصہ رہی جس نے آئینی ترمیم کا فائنل مسودہ تیار کرنا تھا۔ کیا اس کی (پی ٹی آئی) تحریک پر ان کے اور جے یو آئی کے نمائندوں کے اصرار پر وفاقی دستوری عدالت کی بجائے دستوری بنچز بنانے پر اتفاق رائے نہیں ہوا تھا؟
کیا تین سینئر ججز میں سے چیف جسٹس نامزد کرنے کی شق پر اجلاس میں اس کے نمائندوں نے اتفاق نہیں کیا ؟ پھر پیچھے ہٹنے کا فیصلہ عمران خان کا تھا یا اس خاندانِ غلاماں کا جو لوگوں کو غلامی سے نجات دلانے کے نعرے مارتا پھرتا ہے؟ ہماری دانست میں حکومت کو چاہئے کہ 26 ویں ترمیم کا حتمی مسودہ تیار کرنے والی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے منٹس عوام کی آگاہی کیلئے شائع کرادے

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button