حیدر جاوید سیدکالمز

صبح آزادی ( یادداشتیں ) ……حیدر جاوید سید

’’شام ڈھلتے ہی وردی ملبوس ہیڈ خانساماں رزاق مغربی مشروبات کی ٹرالی دھکیلتا ہوا آن پہنچا۔ مچل اور بیگم صاحبہ کے لئے اسکاچ اور سوڈا واٹر۔ مصالچی بھڑکتا ہوا پیٹرولیکس لیمپ اٹھائے پیچھے پچھے چلا آرہا تھا

جناح صاحب نے مولانا ابوالکلام آزاد کو کانگریس کے شو بوائے کا لقب دیا لیکن جب ’’آئس برج ‘‘ میں مسلمان آئی سی ایس نوآموزوں میں سے کسی نے پکاڈلی کے رٹز ہوٹل میں مسلم لیگ کے بانی صدر سر آغا خان کے حجرے (کمرہ ہونا چاہیے کیونکہ ہوٹل ہے) میں چائے پر جناح کے اس تبصرے کا ذکر چھیڑا تو سر آغا خان نے سختی سے ٹوکتے ہوئے کہا
’’میں مولانا ابوالکلام آزاد سے متفق نہیں لیکن میں ان کی نیت پر سوال نہیں اٹھاتا شاید وہ نیک نیتی سے یہی سمجھتے ہوں کہ تقسیم ہندوستان کی مخالفت مسلمانانِ ہندوستان کے اجتماعی مفاد میں ہے‘‘۔
سر آغا خان 1906ء میں ڈھاکہ میں بننے والی آل انڈیا مسلم لیگ کے بانیان میں شامل اور پہلے صدر تھے۔ 1906ء میں مسلم لیگ کے قیام کے بعد سر آغا خان ہی اس وفد کے سربراہ تھے جو ہندوستان کے وائسرائے لارڈ منٹو کے پاس غیرمنقسم ہندوستان میں مسلمان اقلیت کے حقوق کی سفارشات لے کر گیا تھا ۔
طالبعلم جب بھی متحدہ ہندوستان ۔ مسلم قومیت ۔ تقسیم (بٹوارے) اور ان سے جڑے دیگر امور پر لکھی گئی تصانیف و تحاریر سے استفادہ کرتا ہے تو یہ امر مزید دوچند ہوجاتا ہے کہ متحدہ ہندوستان کی مسلم اشرافیہ (بالخصوص مسلم اقلیت والے صوبوں کی) اپنے عہد کا پورا سچ بیان نہیں کرتی
فقط یہ مسلم اشرافیہ ہی نہیں چند ایک سوا مختلف الخیال مسلمان رہنما بھی اسی دو رنگی میں رنگے ہوئے ہیں۔
خیر اس جملہ معترضہ کو اٹھارکھیئے۔ ابتدائی سطور میں دیا گیا اقتباس کمال اظفر کی کتاب ’’صبح آزادی‘‘ سے ہے۔ ’’صبح آزادی‘‘ نامی یہ کتاب ہمارے لائق احترام دوست سید زاہد کاظمی کے اشاعتی ادارے ’’سنگی اشاعت گھر , ہری پور ‘‘ نے شائع کی ہے۔ یہ کتاب کمال اظفر کی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔
یادداشتیں، آنکھوں دیکھے حالات ہڈ بیتی ہر گزرنے والے دن کے ساتھ سیاست ہند میں آئے جوار بھاٹے کا بیان ہے۔ یہ بیان اپنے اندر ایک پوری تاریخ سموئے ہوئے ہے۔ ہوسکتا ہے کہ پڑھنے والے کمال اظفر کی فکروفہم سے کچھ یا یکسر اختلاف کریں۔ اختلاف رائے حسن زندگی ہے یہ دلیل کے ساتھ ہو تو روشنی بڑھتی، کج فہمی سے حبس بڑھتا ہے اور جہالت بھی۔
کمال اظفر 1995ء سے 1997ء تک سندھ کے گورنر رہے۔ 29 فروری 1940ء کو متحدہ ہندوستان کے اترپردیش کے ضلع چند ولی میں پیدا ہوئے۔ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ انہوں نے نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات گنار میرڈل کے ساتھ ان کی شاہکار تنصیف پر کام کے دوران ان کے معاون محقق کے طور پر کام کیا۔ نوترے ڈیم کالج ڈھاکہ، گورنمنٹ کالج لاہور اور بالیول کالج آف آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ کمال اظفر اپنے عہد کے معروف قانون دانوں میں شمار ہوئے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے۔ پی پی پی کی اولین حکومت میں سندھ کے اقتصادیات، منصوبہ بندی اور ترقی کے وزیر رہے۔ 2 بار سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ مقامی حکومت اور دیہی کے وفاقی وزیر اور بعدازاں محترمہ بینظیر بھٹو کے معاون خصوصی بھی رہے۔
ان کے والد اظفر متحدہ ہندوستان کی اعلیٰ بیوروکریسی کا حصہ رہے۔ کمال نے اپنے دوسرے دو بھائیوں کے ہمراہ ڈپٹی کمشنر والد کے ساتھ متعدد مقامات دیکھے جہاں ان کے والد تعینات رہے۔ اظفر کو 1944ء میں تاج برطانیہ کا اعزازی نشان بھی عطا کیا گیا۔
’’صبح آزادی‘‘ کا مطالعہ قاری کو اس وقت کے متحدہ ہندوستان لئے چلتا ہے جہاں قومی یکجہتی کی جگہ مذاہب و عقائد کی بنیاد پر تقسیم ہر گزرنے و الے دن کے ساتھ گہری ہوتی جارہی تھی اور بالآخر اس تقسیم نے اگست 1947ء میں ہوئے بٹوارے کی صورت لی جو نفرتوں، آگ، دھول اور خون میں ڈوبا ہوا تھا۔
’’صبح آزادی‘‘ کا مطالعہ دلچسپ ہے۔ مجھ طالب علم کے خیال میں زندہ تاریخ کی آنکھوں دیکھی بھگتی اور ڈوبتے ابھرتے شام سویرے کی یادداشتوں پر مشتمل اس کتاب پر شاید ایک کالم میں بات نہ ہوپائے۔
فی الوقت یہ ’’صبح آزادی‘‘ کے مطالعے سے استفادے کی پہلی تحریر ہے جو ہمیں متحدہ ہندوستان کی سفیدودیسی افسر شاہی کے رویوں، سیاسی و مذہبی رہنمائوں کی کج ادائیوں، تہذیب و تمدن، عام آدمی کے حالات، افسر شاہی کی شاہانہ تربیت اور ادنیٰ ملازمین کے گلے میں پڑا افسر شاہی کی غلامی کا طوق کے ساتھ اس عہد کے ماہ و سال کی تاریخ و حالات اور مسائل کو سمجھنے اور تجزیہ کرنے کی راہ پر لگاتی ہے۔
’’شام ڈھلتے ہی وردی ملبوس ہیڈ خانساماں رزاق مغربی مشروبات کی ٹرالی دھکیلتا ہوا آن پہنچا۔ مچل اور بیگم صاحبہ کے لئے اسکاچ اور سوڈا واٹر۔ مصالچی بھڑکتا ہوا پیٹرولیکس لیمپ اٹھائے پیچھے پچھے چلا آرہا تھا۔ سمبل پور میں بجلی تو تھی نہیں ڈی سی ہائوس کے لئے 12 خدمت گار مختص تھے۔ پانی والا، پنکھے والا، حمامچی، ڈرائیور، خادم، باورچی، تین چپڑاسی، دو سنتری ایک نیم عریاں چھاتیوں والی خاکروب اس لئے کہ اچھوت ذات کی عورتوں کو چھاتیاں ڈھانپنے کی اجازت نہیں تھی۔
پھر ان سب کے علاوہ تینوں لڑکے شہاب، کمال اور جاوید کی شگفتہ مزاج آیا کلثوم‘‘۔
’’بی بی سی نے خبر دی کہ بحرالکاہل میں تعینات امریکی بحریہ کے جہازوں اور اڈوں کو جاپانی جہازوں نے نشانہ بنایا۔ ایک سو امریکی بحری جہازوں جن میں آٹھ جنگی جہاز بھی شامل تھے، 1940ء سے بحرالکاہل میں ہوائی کے مقام پر تعینات تھے جاپانیوں کے حملے میں 2500امریکی ہلاک ہوئے اور بڑی تعداد میں زخمی‘‘۔
’’اظفر (ڈپٹی کمشنر) نے وہسکی سوڈا کا جام تیار کیا اور خود یخ لیموں پانی کی چسکی لیتے ہوئے مارکونی ریڈیو بند کردیا۔
اس وقت مچل نے پیشنگوئی کی کہ 7 دسمبر 1941ء کا دن ایک اہم اور تاریخی موڑ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ یہ برطانوی صدی کے اختتام اور امریکی صدی کے آغاز کی بنیاد ہے۔ امریکہ اب عالمی جنگ میں شریک ہوگا‘‘۔
’’پرل ہاربر کا واقعہ، اقتدارِ عالم کی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو منتقلی اور تاج برطانیہ کے ’’ہیرے‘‘ یعنی ہندوستان کی مقامی آبادی کو منتقلی کی جانب پہلا قدم ہے‘‘۔
’’دو دہائیوں بعد جب کمال اور پریم لیگ ڈالن کالج میں پریم کے کمرے میں ’’ڈرائی شیری ‘‘ کی چسکیاں لے رہے تھے تو کمال نے اعتراف کیا کہ نسوانی جسم خدا یا فطرت یعنی اپینسوزا کے الفاظ میں ’’خدا یا فطرت کی شہادت‘‘ کے لئے کافی ہے‘‘۔
سولہ سال بیت چکے تھے جب باب ہندوستان پر کئے گئے ایک شاندار استقبال کے ساتھ گاندھی کی ہندوستان واپسی ہوئی۔ 1916ء میں بمبئی کی بندرگاہ پر گاندھی کے لئے موجود استقبالیہ کمیٹی کی قیادت محمدعلی جناح کررہے تھے‘‘۔
’’کانگریسی رہنما سروجنی نائیڈوں نے ایک بار کہا تھا
’’مہاتما گاندھی کو فقیری میں رکھنا بہت مہنگا پڑتا ہے‘‘۔
کمال اظفر نے لکھا ہے ’’کچھ عرصہ قبل مستقبل کے مہاتما گاندھی نے بقول چرچل، بیرسٹر ہوتے ہوئے بکھنگم پیلس میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت کے وقت ایک نیم برہنہ فقیر کا سوانگ بھرا‘‘۔
’’گاندھی نیم خواندہ ہندوستانیوں اور بالخصوص کسانوں کی نفسیات سے واقف تھے‘‘۔ ’’اپنے مشہور زمانہ لانگ مارچ میں ننگے پائوں چل کر انہوں نے صدیوں پرانے برہنہ پا ہندو مصلح شنکر کی روایات کو زندہ کیا‘‘۔
1935ء کے ایکٹ کی بنیاد 1827ء کا برطانوی شمالی امریکہ ایکٹ ہے جس کے ذریعے تاریخ کے پہلے پارلیمانی وفاق کینیڈا کا ظہور ہوا۔ یاد رہے 1935ء کے ایکٹ کے تحت ہی سندھ کی بمبئی سے علیحدہ ممکن ہوئی ورنہ تقسیم کے بعد پاکستان کا مغربی حصہ معاشی اعتبار سے معقول شمار نہ ہوتا۔
1930ء تک انڈیا آفس کے طاقت کے ایوانوں تک یہ آگاہی پہنچ چکی تھی کہ ہندوستان جاگ چکا ہے۔
کانگریس، ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی اور مسلم لیگ تینوں جماعتوں کی باگ دوڑ برطانوی تعلیم یافتہ آزاد خیال ہندوستانیوں کے ہاتھوں میں تھی۔
یہاں بہرطور اختلاف بنتا ہے وہ یہ کہ ” یہ کیسے آزاد خیال تھے جنہوں نے بٹوارے کی راہ ہموار کرنے کے لئے نفرتوں کی سیاست سے آبادی کے مختلف طبقات کے درمیان خلیج کو وسیع کیا۔‘‘ محتاجی سے آزادی، خوف سے آزادی، عقیدے کی آزادی اور آزادی رائے یعنی ان چار آزادیوں کو سیاسی جدوجہد کا نصب العین روز ویلٹ نے قرار دیا یہ نعرہ اب لندن کے گروس ویز چوراہے پر نصب روز ویلٹ کے مجسمے پر کندہ ہے (جاری ہے)

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button