چند روز قبل لاہور کے نجی کالج میں طالبہ سے مبینہ زیادتی اور موت کی فیک نیوز سوشل میڈیا پر پھیلانے والی خاتون گرفتار
اس خاتون نے مبینہ طور پر ایک ویڈیو میں مبینہ طور پر ریپ ہونے والی لڑکی کی والدہ ہونے کا دعوی کیا تھا اور لوگوں کو اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر پھیلانے کے لیے کہا۔
لاہور (نمائندہ وائس آف جرمنی): صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے نجی کالج میں طالبہ سے گذشتہ دنوں مبینہ زیادتی کے بعد ایک ویڈیو کے ذریعے موت کی فیک نیوز اور اس کی والدہ ہونے کا دعوی کرنے والی ایک خاتون کو پولیس نے کراچی سے گرفتار کر کے لاہور منتقل کر دیا ہے۔
اس خاتون نے مبینہ طور پر اس ویڈیو میں مبینہ طور پر ریپ ہونے والی لڑکی کی والدہ ہونے کا دعوی کیا تھا اور لوگوں کو اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر پھیلانے کے لیے کہا۔ انہوں نے ریپ کی شکار لڑکی کی ہسپتال میں خود ’خون میں لت پت‘ لاش دیکھنے کا بھی دعوی کیا تھا۔ پولیس حکام کے مطابق ملزمہ کے خلاف لاہور کے تھانہ گلبرگ میں پیکا ایکٹ کےتحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔ یہ قانون سوشل میڈیا پر غلط معلومات شیئر کرنے کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کا اختیار دیتا ہے۔
ملزمہ کی شناخت سارہ خان کے طور پر کی گئی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان کو اپنا بیان قلم بند کروانے کے لیے پنجاب حکومت کی جانب سے قائم مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ پولیس نے مزید بتایا کہ اس نہ پیش آنے والے واقعے کی غیرمصدقہ خبر پھیلانے پر درج کیے گئے مقدمات کی تعداد اب چار ہو گئی ہے۔تحقیقات کرنے والے ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نجی کالج کی طالبہ سے زیادتی کی جھوٹی خبر پھیلانے والا سوشل میڈیا پیج اسی روز 12 اکتوبر کوبنایا گیا، اسی کالج کی طالبہ نے زخمی لڑکی سے متعلق معلومات کو زیادتی کا رنگ دینے کی شرارت رچائی۔‘
ایف آئی اے نے سوشل میڈیا پیج سے متعلق تمام پہلوؤں سے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ تفتیشی ٹیم نے حکام کے مطابق غلط معلومات پھیلانے والے مجموعی طور پر 950 سے زائد سوشل میڈیا پیجز کی نشاندہی بھی کر لی گئی ہے۔
لاہور میں ایک نجی کالج کی گلبرگ برانچ کے ایک سکیورٹی گارڈ کی جانب سے ایک طالبہ کے مبینہ ریپ کی خبر گذشتہ دنوں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔ اس کے بعد طلبہ کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا جس میں دو درجن سے زائد طلبہ اور پولیس اہلکار زخم بھی ہوئے۔
16 اکتوبر 2024 کو لاہور میں ایک طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کے خلاف مظاہرے کے دوران طلباء پلے کارڈز اٹھائے ہوئے ہیں۔ (عارف علی/ اے ایف پی)
حکام نے مطابق نجی کالج کے طلبہ کو دیگر کالجز کی تنظیموں نے احتجاج کے لیے اکسایا جس کے دوران نجی کالج کے کیمپس نمبر 10 میں والدین کی آڑ میں شرپسند افراد بھی داخل ہوئے۔ ادھر پولیس کے مطابق ایک گرلز کالج میں توڑ پھوڑ کرنے والے افراد نے چہروں پر ماسک لگا رکھے تھے۔
لاہور پولیس کے مطابق یہ خبر پہلے ایک فیس بک پوسٹ کی صورت میں سامنے آئی جس میں بعد میں متاثرہ لڑکی کو ایک نجی ہسپتال میں داخل کروانے کی بات بھی کی گئی۔ پوسٹ میں الزام عائد کیا گیا کہ کالج انتظامیہ اس معاملے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس پوسٹ کے بعد سوشل میڈیا کے تقریباً سبھی پلیٹ فارمز پر اس موضوع پر بات شروع ہو گئی اور لوگوں نے غم و غصے کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔
لاہور پولیس کے مطابق انہوں نے اس کالج برانچ کے تمام سکیورٹی گارڈز کو چیک کیا اور نجی ہسپتال اور تقریبا تمام ہسپتالوں میں سارا ریکارڈ چیک کیا لیکن کہیں بھی اس خبر کی تصدیق نہیں ہوسکی۔
ایک اخباری کانفرنس میں خود وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کو سامنے آنا پڑا اور انہوں نے کہا کہ طالبہ کے مبینہ ریپ سے متعلق ایک ایسی کہانی گھڑی گئی جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا اور ’یہ خطرناک منصوبہ ایک جماعت کی جانب سے بار بار انتشار پھیلانے، جلسے جلوسوں اور دھرنوں میں ناکامی کے بعد بنایا گیا۔‘
کراچی سے گرفتار کی گئی خاتون کے بارے میں ابھی پولیس کچھ زیادہ نہیں بتا رہے ہیں کہ آیا ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہے یا نہیں۔ ایک سب انسپکٹر کی مدعیت میں درج مقدمے میں ان پر عوام میں نفرت پھیلانے اور انہیں فساد کے لیے راغب کرنے کا الزام لگایا ہے۔
ادھر اس واقعے میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سوشل میڈیا پر طالبہ سے مبینہ ریپ کا پروپیگنڈا کرنے کے الزام میں متعدد صحافیوں اور یوٹیوبرز سمیت 38 افراد کے خلاف بھی مقدمات درج کیے ہیں۔ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے درج کردہ مقدمے میں سینیئر صحافی و تجزیہ کار ایاز امیر، عمران ریاض، سمیع ابراہیم، فرح اقرار، صحافی شاکر محمود اعوان اور دیگر کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔
اب توجہ مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی پر ہے کہ وہ کب اس واقعے کے بارے میں معلومات عوام کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔