اسلام آباد (نمائندہ وائس آف جرمنی):وفاقی وزیر نجکاری عبدالعلیم خان نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کی نجکاری کا عمل ناکام ہونے پر کہا ہے کہ پی آئی اے کو چلانا یا ٹھیک کرنا میری ذمہ داری نہیں۔ میری ذمہ داری صرف پی آئی اے بیچنا ہے، وہ جس حالت میں ہے اسی حالت میں بیچنا میری ذمہ داری ہے۔
اتوار کو لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عبدالعلیم خان نے کہا کہ پی آئی اے کو ٹھیک کے لیے میرا کوئی کردار نہیں، مجھے بہت محکمے دیے گئے کہ یہ حکومتوں سے نہیں چل سکے ان کی نجکاری کرنی ہے۔ کیونکہ ان کا خسارہ ہمارے غریب عوام نہیں اٹھا سکتے اس لیے بیچنا ہے۔
’کیا پی آئی اے کا خسارہ میرا قائم کردہ ہے؟ پی آئی اے کے ساتھ جو ہوا ہے اس میں میرا بھی کوئی کردار ہے؟ اپنا اپنا حصہ تلاش کریں کہ پی آئی اے کا بیڑہ غرق کرنے میں کس کس کا کردار ہے؟ اگر ذمہ داری میرے اوپر آئی تو میرا احتساب پھر کریں۔‘
مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف نے گذشتہ روز سنیچر کو نیویارک میں پارٹی کارکنوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ پنجاب حکومت پی آئی اے کو خریدنے یا ’ایئر پنجاب‘ کے نام سے اپنی ایک نئی ایئرلائن شروع کرنے پر غور و خوض کر رہی ہے۔
سنیچر کو ہی خیبر پختونخوا حکومت نے پی آئی اے نجکاری کے عمل میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر نجکاری کو خط لکھا۔
خط میں لکھا گیا کہ خیبر پختونخوا حکومت چاہتی ہے کہ پی آئی اے وفاقی حکومت کے پاس رہے، خیبر پختونخوا حکومت اس قومی اثاثے کو 10 ارب روپے کی موجودہ بولی سے زیادہ قیمت پر خریدنے کے لیے تیار ہے۔
’میرا کام پی آئی اے چلانا نہیں، فروخت کرنا ہے‘
اس سے قبل وزیر نجکاری نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ ان کا کام پی آئی اے کو فروخت کرنا ہے، اسے چلانا ان کی ذمہ داری نہیں۔
بقول علیم خان: ’میری ذمہ داری پی آئی اے کو ٹھیک کرنا نہیں بلکہ اسے فروخت کرنا ہے، اگر مجھے قومی ایئرلائن کی ذمہ داری سونپی گئی ہوتی تو ہی مجھ سے حساب لیا جانا چاہیے تھا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’مجھے نہ بتایا جائے کہ کیسے کام کرنا ہے کیوں کہ مجھے ان سب سے بہتر کام کرنا آتا ہے اور اگر قومی ایئرلائن کی فروخت میں کوئی کوتاہی ہوگی تو اس کی ذمہ داری میں اٹھاؤں گا، میں صرف نجکاری کے قانون پر عمل درآمد کرسکتا ہوں اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتا۔‘
علیم خان نے کہا کہ ان پاس قومی ایئرلائن کی نجکاری کرنے کے فریم ورک میں تبدیلی کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے کیوں کہ پی آئی اے کا فریم ورک پہلے بن چکا تھا، جس میں 600 ارب روپے ہولڈ کیے جا چکے تھے اور اسی کے ساتھ اس کی نجکاری کا عمل شروع ہوچکا تھا۔
’پی آئی اے کی نجکاری کا عمل میرے وزیر بننے سے مہینوں پہلے شروع ہو چکا تھا، اس لیے جو عمل پہلے ہی شروع ہوچکا تھا، اسے میں تبدیل نہیں کرسکتا تھا۔‘
وفاقی وزیر کے مطابق: ’میرے پاس نجکاری کا جو طے کردہ طریقہ کار ہے اس کے تحت ہی میں نجکاری کا عمل سر انجام دے سکتا ہوں۔‘
علیم خان نے کہا کہ ’حال ہی میں چھ بولی دہندگان نے پی آئی اے خریدنے کے لیے اپلائی کیا تھا لیکن بعد میں کچھ شرائط کے باعث وہ الگ ہو گئیں اور صرف ایک کنسورشیم نے بولی دی جو ناقابل قبول حد تک کم تھی۔ بولی دینے والے کی تمام شرائط نہیں مان سکتے تھے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’جو محکمے میرے پاس ہیں ان کی ایک ایک پائی کا حساب دینے کو تیار ہوں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’میں نے پی آئی اے کا یہ حال نہیں کیا اور پی آئی اے کے ساتھ جو ہوا ہے اس میں میرا کوئی کردار نہیں، ماضی میں ہم سب سے غلطیاں ہوئی ہیں اس لیے وہ تمام لوگ اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور قومی ایئرلائن کا بیڑا غرق کرنے میں اپنا حصہ تلاش کریں۔‘
وزیر نجکاری کا کہنا تھا کہ پی آئی اے ہمارا قومی اثاثہ ہے، اس کو کوڑیوں کے بھاؤ نہیں بیچا جا سکتا، یہ ماضی میں دنیا کی بہترین ایئر لائن تھی اور اسے اب بھی منافع بخش کاروبار بنایا جا سکتا ہے۔