سائنس و ٹیکنالوجی

مینڈکوں کی سات نئی انواع دریافت

مڈغاسکر میں محققین نے مینڈکوں کی سات نئی انواع دریافت کی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان مینڈکوں کی بلند سیٹیوں کی آواز اسٹار ٹریک کے صوتی اثرات کی طرح سنائی دیتی ہیں۔

جزائر پر مشتمل جنوبی افریقی ملک مڈغاسکر میں محققین نے مینڈکوں کی سات نئی انواع کا پتا چلایا ہے جن کی تیز سیٹیوں کی آواز اسٹار ٹریک کے جیسے صوتی اثرات پیدا کرتی ہے۔
مینڈکوں کی آواز کو زیادہ تر کراکنگ یا ٹرانا کہا جاتا ہے۔ تاہم اب مینڈکوں کی نئی شناخت شدہ انواع ایسی مخصوص قسم کی آوازیں پیدا کرتی ہیں جو پرندوں کی سیٹیوں کی آواز سے مماثلت رکھتی ہیں۔ خاص طور پر ”بوفس‘‘ نسل کے دیگر مینڈکوں کے ساتھ کمیونیکیشن یا مواصلت کرتے ہوئے۔ بوفس نسل کے مینڈکوں کو ”اسکیلیٹن یا برائٹ آئیڈ فراگ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
جرمنی کی ” براؤن شوائیگ ٹیکنیکل یونیورسٹی‘‘ کے محققین کی ایک ٹیم کے سربراہ پروفیسر میگوئل وینسز ہیں کی ٹیم کو مڈغاسکر میں دریافت ہونے والے مینڈکوں کی انواع کی آواز یا شور سے مشہور سائنس فکشن سیریز اسٹار ٹریک کا خیال آیا۔ اس سیریز میں ان مینڈکوں کی آواز سے ملتے جلتے صوتی اثرات کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس دلچسپ مماثلت کی وجہ سے پروفیسر میگوئل وینسز کی ٹیم نے ان مینڈکوں کی انواع کو اس سیریز کے سات مشہور ترین کرداروں کے نام دیے۔ پروفیسر وینسز کہتے ہیں،” یہی وجہ ہے کہ ہم نے ان مینڈکوں کے نام کرک، پیکارڈ، سسکو، جین وے، آرچر، برن ہم اور پائیک رکھے۔ سائنس فائی سیریز کے سات انتہائی مشہور کپتانوں کے نام پر۔‘‘
ڈنمارک کی کوپن ہیگن یونیورسٹی کے ”نیچرل ہسٹری میوزیم‘‘ سے منسلک ایک اسسٹنٹ پروفیسر مارک شرز جو مذکورہ مطالعے کے سینیئر مصنفین میں سے ایک ہیں کہتے ہیں، ”نہ صرف یہ مینڈک آواز کے اثرات کی وجہ سے اسٹار ٹریک سے مماثلت رکھتے ہیں بلکہ مینڈکوں کے ان انواع کو تلاش کرنے کے لیے بھی ہمیں ‘ ٹریکننگ‘ کرنا پڑی۔ بہت سے ایسی انواع دور دراز جنگلاتی علاقوں اور پہاڑی چوٹیوں سے دریافت ہوئیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،”یہاں ہمیں سائنسی دریافت اور ریسرچ کا حقیقی احساس ہوا، جو ہمارے خیال میں اسٹار ٹریک کی روح میں بھی موجود ہے۔‘‘
ان مینڈکوں کی آوازوں کو ایک طرح سے اپنی تشہیر کرنے سے تشبیح دی گئی ہے۔ محققین کا ماننا ہے کہ یہ خود اپنی پروموشن یا اپنی تشہیر کرتے ہیں۔ خاص طور ان مخصوص آوازوں کے ذریعے نر مینڈک اپنے مادہ ساتھیوں کو یہ معلومات فراہم کرتے ہیں کہ وہ ان کے لیے انتہائی موزوں پارٹنر ہو سکتے ہیں۔‘‘
جرمن شہر ڈارم اشٹڈ میں قائم ”ہیسیشے لانڈس میوزیم فار ورٹیبریٹ زوالوجی‘‘ کے کیوریٹر یا منتظم ڈاکٹر جورن کوہلر کہتے ہیں، ”اگر مینڈک صرف ہمارے مانوس یورپی مینڈکوں کی طرح ٹرائیں، تو ندیوں، جن کے قریب وہ رہتے ہیں کے پانی کے بہنے کی آواز یا شور میں شاید وہ سنائی نہ دیں۔ جبکہ انوکھے انواع کے ان مینڈکوں کی اونچی آوازیں اور سیٹیاں بالکل الگ اور نمایاں شورپیدا کرتی ہیں۔‘‘

محققین اُمید کر رہے ہیں کہ ان کی تحقیق کے نتائج، زوالوجی جرنل ‘ورٹیبریٹ‘ میں شائع ہوں گے اور یہ مڈغاسکر کے آبی جنگلات کے تحفظ کی کوششوں کو تقویت دیں گے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button