بین الاقوامیتازہ ترین

ایران میں 1979 میں ہونے والے ہوسٹیج کرائسس کی یاد میں مظاہرے

یرغمالی بحران یا ہوسٹیج کرائسس 1979 میں پیش آنے والے پہ در پہ واقعات کی ایک کڑی ہے جہاں سے امریکہ اور ایران کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار ہوئے جو تاحال جاری ہے۔

تہران (نمائندہ وائس آف جرمنی):‌ایران کے دارالحکومت تہران میں سابق امریکی سفارت خانے کے باہر مظاہرین کی جانب سے ریلی نکالی گئی۔ یہ ریلی ایران میں 1979 میں ہونے والے ہوسٹیج کرائسس کی یاد میں نکالی گئی۔ یہ معاملہ دہائیوں سے ایران اور امریکہ کے مابین تعلقات میں کشیدگی کی ایک اہم کڑی ہے۔
تہران میں سابقہ امریکی سفارت خانے کے باہر مظاہرین نے ”مرگ بر اسرائیل، مردہ باد امریکہ‘‘ کے نعرے بلند کیے۔ واضح رہے کہ یہ عمارت اب ایک عجائب گھر ہے۔ اس عمارت کو ”جاسوسوں کے اڈے‘‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ایرانی عوام اسے آج بھی امریکہ سے منسوب کرتے ہیں۔ اس عمارت کی دیواروں پر امریکہ مخالف تحریری درج ہیں۔
مظاہرین نے ریلی میں اسرائیل کے خلاف بھی کھل کر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے اسرائیلی اور امریکی پرچم بھی نذر آتش کیے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ایرانی عوام نے اس طرح کی ریلی کا اعقاد کیا۔ ایران میں ہر سال ‘ہوسٹیج کرائسس‘ کی یاد میں اس طرح کے مظاہرے اور ریلیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔
اس موقع پر نام نہاد پاسداران انقلاب کے سربراہ حسین سلامی نے اسرائیل اور امریکہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا، وہ (امریکہ اور اسرائیل) مسلمانوں کو ذبح کر کے بچ نہی پائیں گے۔‘‘
انہوں نے تہران کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ”ہم انہیں ہمیشہ خبردار کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنا رویہ نہ بدلا تو تباہی اور بربادی ان کا مقدر ہوگی۔‘‘
ایران کے دیگر کئی شہروں میں بھی اس طرح کے مظاہرے کیے گئے۔
7 اکتوبر 2023 میں غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے مشرق وسطی میں کشیدگی کا آغاز ہوا ہے۔ یہ تنازعہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی جانب سے اسرائیل پر دہشت گردانہ حملے کے بعد سے اب تک جاری ہے۔
یرغمالیوں کا بحران جسے عرف عام میں ہوسٹیج کرائسس کے نام سے جانا جاتا ہے، نومبر 1979 میں ایران کے سابق سپریم لیڈر آیت اللہ روح اللہ خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کے بعد شروع ہوا جس نے مغربی حمایت یافتہ شاہ محمد رضا پہلوی کو ملک بدر ہونے پر مجبور کیا۔
4 نومبر 1979 کو ایرانی طلبہ نے امریکی سفارت خانے کی عمارت پر دھاوا بول دیا اور سفارت خانے میں موجود درجنوں افراد کو 444 دنوں تک یرغمال بنائے رکھا۔ امریکی سفارت خانے کے عملے کو یرغمال بنانے کا مقصد واضح تھا۔ واشنگٹن سے یہ مطالبہ کہ وہ ایران کے حال ہی میں معزول ہونے والے شاہ پہلوی کو ایران کے حوالے کرے جو مبینہ طور پر علاج کی غرض سے امریکہ گئے تھے۔
1979 کا یرغمالی بحران واشنگٹن اور تہران کے بیچ ایک سفارتی تعطل پیدا کر گیا جو اب تک قائم ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے گزشتہ روز اس عزم کا اظہار کیا کہ ایران اور اس کے اتحادیوں پر حملوں کا اسرائیل اور امریکہ کو سخت جواب دیا جائے گا۔
خامنہ ای نے تہران میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ”امریکہ اور اسرائیلی حکومت دونوں دشمنوں کو جان لینا چاہیے کہ وہ ایران، ایرانی قوم اور مزاحمتی محاذ کے خلاف جو کچھ کر رہے ہیں، اس کا انہیں ضرور منہ توڑ جواب ملے گا۔‘‘

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button