پاکستان کی پارلیمان نے آرمی چیف اور دیگر سروسز چیف کی مدتِ ملازمت اور سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد کے بلز کثرتِ رائے سے منظور کر لیے
اپوزیشن نے اس دوران بھرپور شور شرابہ کیا جس کی وجہ سے اسپیکر ایاز صادق رسمی طور پر 'یس' اور 'نو' کا پوچھتے رہے۔ لیکن تمام بلوں کی تمام شقوں کو منظور کر لیا گیا۔
اسلام آباد : پاکستان کی پارلیمان نے آرمی چیف اور دیگر سروسز چیف کی مدتِ ملازمت پانچ سال کرنے اور سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 کرنے سمیت چھ بلز کثرتِ رائے سے منظور کر لیے ہیں۔ اپوزیشن ارکان نے اس دوران شدید احتجاج کرتے ہوئے بلز کی کاپیاں پھاڑ دیں۔
پیر کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں حکومت نے برق رفتاری کے ساتھ چھ ترمیمی بلز منظور کرائے۔
ان بلوں کی منظوری کے لیے حکومت کو سادہ اکثریت کی ضرورت تھی اور اس کے لیے ‘یس’ اور ‘نو’ کے ذریعے فیصلہ کیا جا سکتا تھا۔
اپوزیشن نے اس دوران بھرپور شور شرابہ کیا جس کی وجہ سے اسپیکر ایاز صادق رسمی طور پر ‘یس’ اور ‘نو’ کا پوچھتے رہے۔ لیکن تمام بلوں کی تمام شقوں کو منظور کر لیا گیا۔
اسپیکر ایاز صادق کی زیرِ صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں قرارداد سے قبل وقفہ سوالات معطل کرنے کی تحریک وزیرِ قانون کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کی گئی جس کو کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا۔
عام ایجنڈا معطل کرنے کی تحریک منظور ہونے کے بعد وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد میں اضافے کا بل پیش کیا جس کے مطابق سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 تک کر دی جائے گی۔
اس کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ایوان میں پیش کیا گیا۔ اس سے قبل یہ آرڈیننس تھا جو اب قومی اسمبلی میں منظوری کے بعد ایکٹ بن سکے گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد نو سے بڑھا کر 12 کرنے کا بل بھی پیش کیا گیا۔
بل پیش کرنے کے دوران قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے شدید ہنگامہ آرائی اور نعرے بازی کی تاہم اس دوران وفاقی وزیر قانون نے بل کے نکات سے ایوان کو آگاہ کیا اور کہا کہ سپریم کورٹ میں ہزاروں کی تعداد میں مقدمات زیرِ التوا ہیں۔ جس کی بنیاد پر ججز کی تعداد بڑھانا ضروری ہے۔
اسی کے ساتھ وزیرِ قانون نے اسلام آباد ہائی کورٹ ترمیمی بل 2024 قومی اسمبلی میں پیش کیا اور بتایا کہ ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد نو سے بڑھا کر 12 کی جا رہی ہے۔
سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ترمیمی بل 2024 اور ہائی کورٹس کی ججز بڑھانے سے متعلق تینوں بل بھی پارلیمان سے کثرتِ رائے سے منظور کر لیے گئے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے پیش کیے گئے پاکستان آرمی ایکٹ 1952، پاکستان نیول ایکٹ 1961 اور پاکستان ایئر فورس ایکٹ 1953 میں ترمیم کے بل بھی منظور کر لیے گئے۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کیے جانے والے ان بلوں کے مطابق تمام سروسز چیفس کی مدت ملازمت پانچ سال کرنے کا بل کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا۔
پاک فوج میں جنرل کی ریٹائرمنٹ کے قواعد کا اطلاق آرمی چیف پر نہیں ہو گا۔ تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا ایکسٹینشن کی صورت میں آرمی چیف بطور جنرل کام کرتا رہے گا۔
ترمیمی بل میں لکھا گیا ہے کہ اگر ممکن ہو تو آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت آئینی بینچ کے دیے گئے فیصلے کے خلاف لارجر آئینی بینچ میں 30 روز میں اپیل ہو سکے گی۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل کا اطلاق 26 ویں آئینی ترمیم سے پہلے لاگو ہو گا۔
ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون میں سات اے اور سات بی کی شقوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ہر کیس اپیل کو فرسٹ ان فرسٹ آؤٹ کی بنیاد پر سنا جائے گا۔
قانون میں نئی شق سات بی کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ بل میں لکھا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں ہر مقدمے، معاملے یا اپیل کی سماعت ریکارڈ ہو گی اور باضابطہ نقل بھی تیار کی جائے گی۔
ریکارڈنگ اور نقول عوام کے لیے دستیاب ہوں گی۔ پچاس روپے فی صفحہ فیس کی رقم ادائیگی پر عدالتی کارروائی کی تصدیق شدہ کاپی عدالتی کارروائی کے لیے استعمال ہو سکے گی۔
ایوان میں بل پیش کیے جانے کے موقع پر قومی اسمبلی میں بھرپور ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی اور پاکستان تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی نے تمام کارروائی کے دوران شور مچایا اور بل کی کاپیاں پھاڑ کر اسپیکر، وزیر قانون اور وزیر دفاع کی طرف پھینکیں۔
اس دوران پی ٹی آئی کے بعض ارکان کا حکومتی ارکان سے تصادم بھی ہونے کے قریب تھا لیکن بعض ارکان نے ان کے درمیان بیچ بچاؤ کرا دیا۔
اس ہنگامہ آرائی کے دوران سارجنٹ ایٹ آرمز بھی اسپیکر کے قریب موجود رہے۔
اسپیکر ایاز صادق شروع میں اپوزیشن ارکان کو چپ رہنے کا کہتے رہے اور بارہا کہا کہ حکومتی وزرا کو بات کرنے دی جائے تو انہیں بھی موقع ملے گا۔ لیکن اس کے بعد انہوں نے بھی بلز کو پاس کرنے پر زور دیا اور تمام بلز منظور کر لیے گئے۔
بل پاس ہونے کے بعد کئی حکومتی ارکانِ اسمبلی سے بات کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے کسی بھی بات کا جواب نہیں دیا۔