
بیٹی کے دُکھ پر ماں بھی بیمار، ’کاش رضوانہ کو نہ بھیجتی‘
رضوانہ کی سوشل میڈیا پر زیرِگردش تصویریں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ پڑھے لکھے ہونے کا دعوے دار طبقہ قانون توڑتے ہوئے ہچکچاتا تک نہیں۔ امید ہے کہ رضوانہ کے جسم پر لگے گھاؤ بھر جائیں گے لیکن کیا انسانیت پر اس کا کھویا ہوا اعتماد دوبارہ بحال ہو سکے گا؟
یہ 2007 کی بات ہے جب 10 سالہ گھریلو ملازمہ عظمیٰ کو اس کی مالکن نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، اس وقت بھی گھریلو ملازماؤں اور بچوں کے گھروں میں کام کرنے کے حوالے سے قانون سازی کرنے کی بات ہوئی۔
قانون سازی بھی ہوئی مگر کیا کیجیے کہ قانون بنانا اہم نہیں بلکہ اس پر بروقت عملدرآمد کرنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
رضوانہ کی سوشل میڈیا پر زیرِگردش تصویریں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ پڑھے لکھے ہونے کا دعوے دار طبقہ قانون توڑتے ہوئے ہچکچاتا تک نہیں۔ امید ہے کہ رضوانہ کے جسم پر لگے گھاؤ بھر جائیں گے لیکن کیا انسانیت پر اس کا کھویا ہوا اعتماد دوبارہ بحال ہو سکے گا؟
کمسن رضوانہ فی الحال لاہور کے جنرل ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں زیرِعلاج ہے، جب کہ رضوانہ کی والدہ اور والد باری باری اپنی بیٹی کا خیال رکھنے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔
ان کی والدہ کے بقول، ’وہ غم کی شدت اور ذہنی دباؤ کے باعث کئی مرتبہ خود بھی بیمار ہوچکی ہیں اور اسی ہسپتال کی ایمرجنسی میں ہی داخل بھی رہی ہیں۔‘
رضوانہ کی والدہ شمیم بی بی کی عمر لگ بھگ 45 برس ہے اور ان کے 10 بچے ہیں۔
رضوانہ کے والد منگا خان بتاتے ہیں: ’شادی کے بعد ہی میاں بیوی نے مل کر محنت مزدوری شروع کر دی تھی۔ ان کی اہلیہ شروع سے ہی سرگودھا کے ایک مقامی زمیندار کے گھر پر کام کرتی تھیں۔ بڑا بیٹا اور بیٹی بھی مزدوری کرتے ہیں جب کہ رضوانہ کو پہلی بار کام پر بھیجا تھا۔‘
شمیم بی بی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’انہوں نے دو مرتبہ رضوانہ کے کام کرنے کی پیشکش کو رَد کیا۔ تیسری مرتبہ ہم مان گئے کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ ہمیں کہا گیا کہ اس نے وہاں بچوں کی دیکھ بھال کرنی ہے اور باورچی خانے کا کوئی چھوٹا موٹا کام۔ بس اسی وجہ سے میں نے بیٹی کو بھیج دیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جب پہلی تنخواہ 10 ہزار روپے مجھے بھیجی گئی تو ان پیسوں کو لے کر مجھے خوشی محسوس نہیں ہوئی۔ ذہن میں کچھ اور ہی چل رہا تھا۔ میں نے اپنے میاں کو بھی نہیں بتایا کہ میرے اندر کیا چل رہا ہے۔ تنخواہ پکڑ کر عجیب سا لگا کیونکہ بچی کو مجبوری میں بھیجا تھا۔ یہی خیال تھا کہ حالات کچھ بہتر ہوں اور بچی کو واپس بلا لوں کیونکہ اس کا وہاں دل نہیں لگ رہا تھا۔‘