وہ دن پھر لوٹ آئیں !…….ناصف اعوان
عجیب موسم ہے کہ سردی پے جوبن آتا ہی نہیں ۔ اب تو سموگ بھی کہیں سے آگئی ہے ۔ سارا سارا دن سورج کو ڈھانپے رکھتی ہے جس سے کاروبار حیات کی رفتار قدرے سست پڑ گئی ہے
وہ بھی کیا زمانہ تھا جب سردیاں ‘سردیاں ہوتی تھیں اپنے وقت پر آتیں اور رخصت ہو جاتیں ۔جو مہینے سخت سردی والے ہوتے جب وہ گزر نے کے قریب ہوتے تو بہار کے آ نے کا احساس ہونے لگتا پھر ہر شجر ہر شاخ پر ایک نیا روپ آرہا ہوتا کہ شگوفے پھوٹ رہے ہوتے ساتھ ہی کچھ پھول بھی نمودار ہونا شروع ہو جاتے جو ماحول کومعطر کر رہے ہوتے جس سے دماغ میں نئے نئے خیالات کونپلوں کی طرح ابھر رہے ہوتے مگر آج وہ سردیاں ہیں نہ وہ فضائیں اور نہ وہ پھیلی ہوئی خُوشبوئیں ۔ عجیب موسم ہے کہ سردی پے جوبن آتا ہی نہیں ۔ اب تو سموگ بھی کہیں سے آگئی ہے ۔ سارا سارا دن سورج کو ڈھانپے رکھتی ہے جس سے کاروبار حیات کی رفتار قدرے سست پڑ گئی ہے کیونکہ باہر نکلو تو اس سے متاثر ہونے کا خطرہ ہے اس کے باوجود رزق کی تلاش میں گھر کی دہلیز کو پار کرنا ہی پڑتا ہے ۔ اگرچہ ایسی صورت حال ترقی یافتہ ملکوں میں بھی پیش آتی رہی ہے مگر انہوں نے اقدامات کرکے اس پر قابو پالیا مگر ہمارے ہاں اس کے خاتمے کے لئے قابل ذکر کوششیں نہیں کی گئیں ہاں البتہ درسگاہیں اور پارکس بند کر دئیے گئے ہیں گھروں سے بغیر ضروری کام کے نہ نکلنے کو بھی کہا گیا ہے ۔ماسک پہننے اور دیگر حفاظتی انتظامات کا بھی سرکاری اور غیر سرکاری طور سے کہا جا رہا ہے مگر مجال ہے آلودگی پھیلانے والے کارخانوں ملوں اور فیکٹریوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ماحول کو صاف رکھنے والےآلات کا استعمال کریں ایک کام دکھاوے کے طور سے ضرور کیا جاتا ہے کہ انہیں چند روز کے لئے سیل کر دیا جاتا ہے مگر دام بنائے کام‘ وہ دوبارہ کھل جاتے ہیں انہیں آبادیوں سے دور چلے جانے کو حکماً نہیں کہا جاتا اگر کہا بھی جاتا ہے تو برائے نام لہذا پر نالہ وہیں کا وہیں رہتا ہے اور لوگ موذی امراض کا شکار ہوتے رہتے ہیں ۔اینٹیں بنانے والے بھٹوں کا بھی آلودگی پھیلانے میں بڑا ہاتھ ہے انہیں بھی رہائشی علاقوں سے دُور کہیں لے جایا جائے پھر شہروں میں چلنے والی گاڑیوں رکشاؤں موٹر سائیکلوں کی کی تعداد میں کمی لائی جائے اور سرکاری سطح پر بڑی بسیں چلائی جائیں ۔الیکٹرک موٹر سائیکلوں کی ترغیب دی جائے وگرنہ حالات خراب سے خراب ہوتے چلے جائیں گے جو قومی معیشت پر بُرے اثرات مرتب کریں گے۔ بیمارقوم معاشی وسماجی سرگرمیوں میں بھر پور طور سے حصہ نہیں لے سکتی کہ اسے اپنا آپ ایک بوجھ محسوس ہونے لگتا ہے ۔
ایشین ڈویلپمنٹ بنک نے ایک رپورٹ جاری کی ہےجس کے مطابق ”پاکستان دو ہزار ستر تک اکیس فیصد جی ڈی پی میں کمی کا سامنا کر سکتا ہے یہ تسلسل برقرار رہنے سے سال اکیس سو تک جی ڈی پی میں چالیس فیصد سے زائد تک کا نقصان ہو سکتا ہے سب سے زیادہ نقصان زراعت کے شعبہ کو پہنچنے کا خطرہ ہے ۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے کیش کراپ بُری طرح متاثر ہوگی ۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دو ہزار ستر تک چاول اور مکئی کی پیداوار میں قریباً چالیس فیصد سویابین میں بیس فیصد اور گندم کی پیداوار میں پنتالیس فیصد مچھلی کے کاروبار سے وابستہ افراد بیس فیصد پیداواری کمی کا شکار ہو سکتے ہیں ۔موسم کی اس تبدیلی سے درختوں کو دس سے بیس فیصد تک نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔گرمی کے دنوں میں بجلی کی کھپت چالیس فیصد زیادہ ہونے سے افرادی قوت میں بھی دس سے بیس فیصد کمی کا امکان ہے ۔“
اس رپورٹ سےبخوبی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے دن کس قدر خوفناک اور تکلیف دہ ہوں گے مگر شاید اس کی فکر کسی کو نہیں ہماری حکومتیں جو منصوبے بناتی ہیں وہ عارضی ہوتے ہیں ان کا مقصد اپنے ووٹروں سپورٹروں اور عام لوگوں کو خوش کرنے کے لئے ہوتا ہے دیرپا پالیسیاں بہت کم ہی بناتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں مختلف بحرانوں کا سامنا ہے ۔ معذرت کے ساتھ ہمیں یہ کہنا پڑتا ہے کہ بیشتر مشکلات ایسے لوگوں کی وجہ سے درپیش ہیں جو حکومتوں کے منظور نظر ہوتے ہیں انہوں نے ان پر پیسا خرچ کیا ہوتا ہے لہذا وہ اس کی واپسی بھی چاہ رہے ہوتے ہیں جس کے لئے وہ جائز ناجائز ذرائع استعمال میں لاتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا لہذا جب تک قانون میں لچک کو ختم نہیں کیا جاتا ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو سکتا جسے گامزن کہا جاتا ہے وہ درست نہیں گامزن اس وقت تک نہیں ہو سکتا۔
جب تک قانون ہر ایک کو ایک آنکھ نہیں دیکھے گا دولت کی منصفانہ تقسیم نہیں ہو گیا اور انسانی اقدار کی تذلیل کا سلسلہ نہیں رکے گا ۔ ابھی تو یہاں اس کا آغاز ہی نہیں ہوا لہذا مجموعی صورت حال متزلزل ہی رہے گی مگر ہمیں لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں جب سیاسی منظر نامے میں کوئی رنگ واضح ہو کر ابھرے گا جسے ابھرنا ہی ہے تو لوگوں کے چہروں پر خوشی کی ہلکی سی لکیر دیکھی جا سکے گی ۔فی الحال دُھند ہے سموگ ہے اور پت جھڑ ہے ۔ مگر ہمیں پریشان نہیں ہونا چاہیے اور اچھے دنوں کی امید کرنی چاہیے کیونکہ زندگی میں میں اُتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں جو ان میں سرخرو ہوتا ہے وہ روشنیوں کی رہگزر پر چل پڑتا ہے لہذا ہمیں پورا یقین ہے کہ یہ مایوسی اور اداسی بہت جلد ایک دوسری کیفیت میں بدل جائے گی جو انتہائی خوشگوار و پُر مسرت ہوگی لہذا غم نہ کریں پچھتائیں نہیں ۔جو آج اپنی دنیا میں کھوئے ہوئے ہیں کہ انہیں صرف اپنی ذات سے دلچسپی ہے اپنے اقتدار سے محبت ہے جس کے لئے وہ بے چین و بے قرار پھر رہے ہیں اور عوام کی پریشانیوں کو معمولی سمجھ رہے ہیں انہیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ جب عوامی طاقت بپھرتی ہے تومکافات عمل کا آغاز ہو جاتا ہے پھر اختیارات والے مجبور و بے بس لوگوں کی طرف ملتجیانہ نظروں سے دیکھتے ہیں مگر وہ اپنے دُکھوں کو بھلا نہیں پاتے اور اپنا حساب برابر کرتے ہیں لہذا دُور اندیشی یہی ہے کہ امیرِ شہر کو چشم تصور سے آنے والے سیاسی منظر نامے کو دیکھ لینا چاہیے اور اسے اس فضا اور اس ماحول کی جانب پلٹنا چاہیے کہ جب خزاں بھی بھلی لگتی تھی اور بہار ایک نئی زندگی کا احساس دلاتی۔ ہائے! اُن دنوں ایسے دن پھر لوٹ آئیں !