پڑوسی ممالک سے تعلقات (ایک تمہیدی کالم) …..حیدر جاوید سید
ہمارے چار پڑوسی ممالک ہیں، ایران، بھارت، افغانستان اور چین، ان سے ہمارے تعلقات کیسے اور کس سطح کے ہیں اس پر لمبی چوڑی بحث اور سر کھپانے کی ضرورت نہیں۔
پڑوسی ملکوں کے درمیان اچھے روابط، سماجی و ثقافتی تعاون اور تجارت خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔ آپ دنیا بھر کے ممالک اور بالخصوص مختلف خطوں میں پڑوسی ممالک کے روابط کا تنقیدی جائزہ لیجئے۔ بدترین حالات میں بھی امید کی شمع روشن دیکھائی دے گی۔
ہمارے چار پڑوسی ممالک ہیں، ایران، بھارت، افغانستان اور چین، ان سے ہمارے تعلقات کیسے اور کس سطح کے ہیں اس پر لمبی چوڑی بحث اور سر کھپانے کی ضرورت نہیں۔
افغانستان کا پاکستان کے لئے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے دن سے سوتنوں والا رشتہ ہے۔ برصغیر کے بٹوارے کے نتیجے میں بننے والے پاکستان کے پشتون علاقوں پر افغان حکومتوں کا دعویٰ رہا ہے اور اب بھی جب افغانستان پر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی ہمہ قسم کی مدد سے قبضہ کرنے والے افغان طالبان برسراقتدار ہیں گاہے کوئی نہ کوئی افغان لیڈر اٹک تک افغان حدود کا دعویٰ ٹھوک دیتا ہے۔
آپ سوشل میڈیا پر فعال افغان باشندوں، وہ افغانستان میں رہتے ہوں، پاکستان میں یا پاکستان کے جعلی پاسپورٹ پر بیرون ملک مقیم ایک طبقہ ہو یا اپنے پاسپورٹ پر گئے افغان ان کے سوشل میڈیا اکائونٹس پر گھوم پھر کر دیکھ لیجئے، پاکستان اور اہل پاکستان کے لئے ہر وہ ناروا گالی آپ کو لکھی ملے گی جو مارکیٹ میں دستیاب ہے۔
گالی بازوں کے اس گروپ کی حمایت میں ہمارے ہاں کے کچھ پشتون قوم پرست اور پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین پیش پیش دیکھائی دیں گے۔
ہم ایسے طالب علم جو صحافت کے کوچے میں قلم مزدوری سے رزق کماتے ہیں برسوں بلکہ عشروں سے پاکستان کی افغان پالیسی کے ناقد ہیں۔ سیاسیات اور صحافت کے ہم سے طلبا نے افغان سرزمین پر لڑی گئی امریکہ سوویت یونین جنگ جسے مسلم دنیا اور ہمارے ہاں جہاد افغانستان کے طور پر متعارف کروایا گیا تھا میں شرکت کی مخالفت کی۔
یہی نہیں ہم تو افغان انقلاب ثور کے خلاف افغان رجعت پسندوں کی سرپرستی اور مہاجرین کے لئے سرحد کھولنے کے بھی ناقد تھے۔
سادہ لفظوں میں یہ کہ ہمارے پالیسی سازوں نے ہمیشہ افغانستان میں ایک گروپ کو معشوق کی طرح پالا اور چار دشمن بنائے لیکن ان کے ہر "محبوبِ عصر” اور چار دشمنوں میں سے جسے بھی موقع ملا اس نے پاکستان کو گھائو لگانے سے دریغ نہیں کیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ افغان ڈیموکریٹ ہوں یا رجعت پسند ہر دو کو پاکستان سے سیاسی مذہبی تعاون حاصل ہوتا ہے۔ مذہبی شدت پسندوں کو تو بنام جہاد یہاں سے چندہ بھی فراہم کیا جاتا ہے۔
بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود اور پھر ملا فضل اللہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ان تین سربراہوں کے ادوار میں ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کا تعلق مالیاتی و عددی تعاون کے مفاد پر استوار تھا۔ تمہید طویل ہوگئی عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ چار پڑوسیوں میں سے کسی ایک سے بھی ہمارے تعلقات اطمینان بخش ہرگز نہیں۔ چین نے حال ہی میں جن تحفظات کا اظہار کیا گو وزارت خارجہ کی ترجمان نے اسے سوشل میڈیا کا پروپیگنڈہ قرار دیا لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری دوستی میں ’’بال‘‘ آچکا۔
یہ کام تبدیلی برانڈ دور میں سی پیک کا بلیو پرنٹ امریکہ کو عطا کرنے سے شروع ہوا تھا چینی ماہرین اور کارکنوں کے قتلوں اور عمران دور میں سی پیک پر "ٹھنڈ” ڈالنے سے دوریاں بڑھیں۔ پی ڈی ایم اوراب والی اتحادی حکومت نے چین کو جو یقین دہانیاں کرائیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔
اس وقت تین مسئلے اہم ہیں، دہشت گردی میں مارے گئے چینی ماہرین اور کارکنوں کے خاندانوں کے لئے معاوضے کی عدم ادائیگی، سانحہ داسو ڈیم کے نامزد مجرموں کی گرفتاری یقینی نہ بنانا، داسو سانحہ کے ذمہ داران کو سانحہ سے چند برس قبل گلگت جیل سے فرار کرانے والے اور دیگر سہولت کاروں کوشامل تفتیش نہ کرنا اور چینی ماہرین و کارکنوں کی سکیورٹی کے لئے چینی فورسز کی تعیناتی کے ساتھ حال ہی میں کراچی ایئرپورٹ کے قریب ایک خودکش حملے میں مارے گئے چینی ماہرین کے کیس کی تحقیقات کے لئے بنی جوائٹ انٹروگیشن ٹیم میں چینی نمائندہ شامل کرنے سے انکار کی وجہ سے تلخی ہی نہیں دوری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
ہمارے حکومتی ذمہ داران اور دفتر خارجہ والے ان تحفظات کو سوشل میڈیا کا پروپیگنڈہ قرار دے کر چودھری شجاعت والا مٹی پائو پروگرام چلاتے رہنے کے خواہش مند ہیں لیکن ایسا ہوتا دیکھائی نہیں دیتا۔
پاک چین تعلقات پر لہراتے خطرات سے آنکھیں بند کرکے سب اچھا کا تاثر دینا درست نہیں۔
اب آیئے ایران و پاکستان تعلقات پر۔ ایران اسلامی دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے پاکستان کے قیام کوتسلیم کیا اور اقوام متحدہ کی رکنیت کے لئے پرجوش حمایت کی مگر پاک ایران تعلقات کبھی بھی مثالی ثابت نہیں ہوئے اس کے باوجود کے 1965ء اور 1971ء کی جنگ میں ایران پاکستنان کا کھلا طرفدار رہا۔ ایٹمی پروگرام میں مالی اعانت بھی کی۔
پاکستانی اہلِ تشیع کا ایک بڑا طبقہ ایرانی انقلاب کے پرجوش حامی کے طور پر سامنے آیا ابتدائی عرصہ میں انقلاب اور شیعہ مخالف نظریات رکھنے والوں کی ریاستی سرپرستی شروع ہوئی اس سرپرستی سے جو گھنائونا کھیل شروع ہوا اسے ریاست کے بھونپوئوں نے سعودیہ ایران پراکسی وار کا نام دے کر اس امر کی پردہ پوشی کرنے کا سامان کیا کہ ایرانی انقلاب اوراس کی پاکستانی حامی شیعہ تنظیموں کے خلاف فرقہ وارانہ ردعمل کو منظم کرنے کے لئے سعودی عرب سے زیادہ امریکی سی آئی اے کا کردار تھا۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ کے چند مہرے اس میں اہم رول ادا کرتے رہے۔ گو حالیہ عرصہ میں ایران اور پاکستان نے ایک سطح پر ہم آہنگی سے ایک دوسرے کی حدود میں موجود مخالف مسلح گروپوں کے ٹھکانوں پر حملے کئے
لیکن بداعتمادی اب بھی دوطرفہ ہے اس تازہ بداعتمادی کی بڑی وجہ پی ڈی ایم حکومت میں خارجہ امور کے ایک معاون کا سعودی عرب کو بعض معلومات فراہم کرنا تھا۔
چوتھا پڑوسی بھارت ہے۔ بھارت و پاکستان برصغیر کے بٹوارے سے معرض وجود میں آئے لگ بھگ 25 برس بعد پاکستان کے بطن سے بنگلہ دیش نے جنم لیا۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات روز اول بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ بٹوارے کے حتمی اعلان کے ساتھ ہی آگ خون اور دھول سے اٹ گئے۔
دونوں ملکوں کی سرکاری تاریخ میں دوسرا پڑوسی ملک اور اس کے انتہا پسند مجرم ہے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ جھوٹ پھیلانے میں دونوں ملک مجرم ہیں۔ بٹوارے کے عمل میں مسلم ہندو سکھ فسادات شاہ عالمی لاہور اورلال کرتی راولپنڈی سے شروع ہوئے دوسری جانب سے بھی اس کا جواب آیا یوں برصغیر کے پنجاب (آج کے دونوں حصوں) میں خون کی ندیاں بہہ گئیں۔
لیکن دونوں حکومتوں نے اپنے شرپسندوں اورقاتلوں کی پردہ پوشی میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی۔
بٹوارے کے خون خرابے کے علاوہ مسئلہ کشمیر بھی ایک تلخ حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ یہ الگ بات ہے تنازع کشمیر کے حل میں اصل فریق کشمیریوں کو کوئی نہیں پوچھتا وہ کیا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے پہلے اور آخری فیلڈ مارشل اور پہلے فوجی سربراہ ایوب خان نے دو دریائوں کو بیچ دیا سندھ طاس معاہدہ ہوا۔ دونوں ملکوں نے جنگیں لڑیں دونوں طرف کے تشدد پسندوں کی روزی روٹی نفرتوں سے عبارت ہے۔
یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کوئی بھی پیشرفت دونوں ملکوں کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیرممکن ہی نہیں۔
معاف کیجئے گا آج کا پورا کالم ہی ایک تمہید میں مکمل ہوگیا۔ پاک بھارت تعلقات کی اونچ نیچ نفرتوں، تنازعات پر لکھنے بیٹھا تھا بات دوسری طرف نکل گئی۔ ان دنوں پاکستان اور بھارت کے دو معروف سفارتکاروں ڈاکٹر ہمایوں خان اور جی پارتھا سارتھی کے مضامین پر مشتمل کتاب ’’سفارتی تفریق‘‘ (سرحد پار گفت و شنید) زیرمطالعہ ہے ( کتاب سید زاہد کاظمی کے ادارے ” سنگی اشاعت گھر ” سے شائع ہوئی ) اس کتاب کا اردو ترجمہ ہمارے لائق احترام دوست ڈاکٹر مجاہد مرزا نے کیا اور بہت اعلیٰ ترجمہ ہے
چلیں اگلے کالم میں پاک و ہند کے ان دو خارجہ امور کے ماہرین کی آنکھوں سے پاک بھارت تعلقات کو دیکھنے اور تنازعات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔