اسلام آباد: مختلف مقدمات میں جیل سے ضمانت پر رہائی کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ بشریٰ بی بی نے پارٹی احتجاج کی قیاد ت کی۔ حکومتی رکاوٹیں عبور کرنے کے بعد جب پی ٹی آئی کا احتجاجی قافلہ اسلام آباد میں داخل ہوا تو اسے بشریٰ بی بی کی ایک بڑی سیاسی کامیابی کے طور پر دیکھا گیا اور یہاں تک کہ کئی مبصرین نے انہیں عمران خان کی عدم موجودگی میں پارٹی کی سربراہی تک کے لیے موزوں قرار دیا۔
اسلام آباد میں ڈی چوک کے قریب پہنچنے کے بعد بشریٰ بی بی کے کارکنوں سے دھواں دھار خطاب نے بھی انہیں سیاسی طور پر نمایاں کیا۔ انہوں نے کارکنوں کو یقین دلایا کہ وہ عمران خان کی رہائی کے بغیر یہاں سے واپس نہیں لوٹیں گی، اور پھر انہوں نے کارکنوں سے بھی ایسا ہی کرنے کا حلف لیا۔ تاہم پھر چھبیس نومبر کی رات حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد ان کے کردار پر بھی بہت سے سوالیہ نشان اٹھنا شروع ہو گئے۔ کچھ سیاسی پنڈت تو پارٹی قیادت کے درمیان اختلافات کو بھی بشریٰ بی بی کے سیاسی معاملات میں کردار کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔
تاہم بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کے جیل میں جانے کے بعد سے ہی پی ٹی آئی اندرونی طور پر تنازعات کا شکار ہو گئی تھی۔پارٹی میں کوئی ڈھانچہ نہیں ہے اور یہی پارٹی کے اندرونی اختلافات اور معاملات کی بدنظمی کی بڑی وجہ ہے۔ بشریٰ بی بی کا کردار بھی متنازع ہے،احتجاج کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کے رہنما اپنے ووٹرز کی شدید تنقید کا سامنا کر رہے ہیں اور اپنے انتخابی حلقوں میں شرمندگی اٹھا رہے ہیں۔
کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق بشریٰ بی بی نے احتجاج شروع ہونے سے قبل ایک پارٹی میٹنگ میں جماعت کے بعض رہنماؤں کی موجودگی میں ان کے خلاف سخت الفاظ استعمال کیے اور ان پر اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے پوری نہ کرنے کے الزامات بھی لگائے۔
حکومت ابھی تک ہر مرتبہ پی ٹی آئی کے احتجاج کو بلا نتیجہ ختم کرانے میں کامیاب رہی ہےحکومت ابھی تک ہر مرتبہ پی ٹی آئی کے احتجاج کو بلا نتیجہ ختم کرانے میں کامیاب رہی ہے
پی ٹی آئی کی پے درپے ناکام احتجاجوں کے سلسلے کو دیکھتے ہوئے بعض حلقے اسے حکومت کی بہتر سیاسی حکمت عملی سے بھی تعبیر کر رہے ہیں۔ البتہ تجزیہ کار ضیغم خان کہتے ہیں کہ سیاسی مخالفین کا کام ہے کہ وہ چالیں چلتے ہیں لیکن ایک سیاسی جماعت کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کی حکمت عملی میں کیا خامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پی ٹی آئی کی قیادت کو اپنے کارکنوں کو چھوڑ کر احتجاج سے نکلنے کا موقع تو دے سکتی ہے لیکن وہ انہیں زبردستی ایسا کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔
پی ٹی آئی کی قیادت کو خود سوچنا چاہیے کہ وہ اس جال میں کیوں پھنس رہی ہے؟ حالیہ احتجاج کی ناکامی پی ٹی آئی کی قیادت پر اعتماد ختم کرنے کا سبب بن رہی ہے اور جب اعتماد نہیں ہوگا، تو پارٹی آئے روز احتجاج بھی نہیں کر سکے گی۔