پاکستان پریس ریلیزاہم خبریں

کوہ سلیمان کے دامن سے نکلنے والا سیلاب صدیوں پرانا خزانہ بہا لایا: سخی سرور میں تاریخی سکے اور نوادرات کی حیران کن دریافت

ان سکوں کی تاریخی حیثیت اور عہد کی حتمی شناخت کے لیے کیمیکل ایگزامینیشن اور لیبارٹری ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔

ڈیرہ غازی خان (نمائندہ خصوصی)
پنجاب کے جنوبی ضلع ڈیرہ غازی خان میں واقع سخی سرور کا علاقہ ان دنوں غیر معمولی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، جہاں مون سون کی شدید بارشوں کے بعد آنے والے سیلابی ریلوں نے نہ صرف تباہی پھیلائی بلکہ صدیوں پرانے تاریخی سکے اور نوادرات بھی منظر عام پر لے آئے ہیں۔

کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے سے بہنے والے برساتی نالوں میں مقامی افراد نے مغل، سکھ، درانی، لودھی، تغلق، ویما دیوا کنشکا، بہادر شاہ ظفر، نادر شاہ، برطانوی راج اور حتیٰ کہ عرب و وسطی ایشیا کی مختلف سلطنتوں کے نایاب سکے دریافت کیے ہیں، جو اس علاقے کی تہذیبی گہرائی اور تاریخی ورثے کی اہمیت کو نئی جہت عطا کرتے ہیں۔


سیلاب کے بعد خزانے کی تلاش: سخی سرور کا نیا روپ

یہ دریافت سیلاب کی تباہی کے بیچ میں چھپے ایک انوکھے اور قیمتی پہلو کو اجاگر کرتی ہے۔ محکمہ آثارِ قدیمہ پنجاب کے مطابق، مقامی افراد نے اب تک 400 سے 500 تک نایاب سکے ضلعی انتظامیہ کے حوالے کیے ہیں۔

سیکریٹری برائے سیاحت و آثار قدیمہ ڈاکٹر احسان بھٹہ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ:

"محکمہ آثار قدیمہ کی خصوصی ٹیم، ڈپٹی ڈائریکٹر سلمان تنویر کی قیادت میں، ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان محمد عثمان خالد اور پولیٹیکل اسسٹنٹ امیر تیمور کے ہمراہ سخی سرور پہنچی اور ان سکوں و نوادرات کا تفصیلی معائنہ کیا۔”


کون سے سکے ملے؟ ایک تاریخی جھروکہ کھل گیا

محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق یہ سکے مختلف تاریخی ادوار سے تعلق رکھتے ہیں:

  • مغل سلطنت

  • سکھ دور

  • تغلق اور لودھی خاندان

  • درانی اور نادر شاہی عہد

  • ویما دیوا کنشکا (کشن سلطنت)

  • بہادر شاہ ظفر اور مغلیہ زوال

  • برطانوی دور

  • وسطی ایشیا اور عرب دنیا کے سکے

یہ دریافت نہ صرف تاریخی اہمیت کی حامل ہے بلکہ اس نے ماہرین آثار قدیمہ کو نئی تحقیق اور کھدائی کے امکانات کی طرف راغب کر دیا ہے۔


ماہرین کی رائے: کیمیکل ایگزامینیشن اور تحقیق جاری

ڈپٹی ڈائریکٹر آثار قدیمہ سلمان تنویر کے مطابق:

"ان سکوں کی تاریخی حیثیت اور عہد کی حتمی شناخت کے لیے کیمیکل ایگزامینیشن اور لیبارٹری ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔ ہم آئندہ اس مقام کو ایک ریسرچ سینٹر اور سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینے کی سفارشات بھی مرتب کر رہے ہیں۔”


مقامی افراد کا کردار: خزانے کے محافظ بن گئے

قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ دریافت سرکاری کھدائی کے نتیجے میں نہیں بلکہ مقامی افراد کی کوششوں سے ہوئی۔
سخی سرور کے قریبی رہائشی کاشف کے مطابق:

"لوگ روزانہ نالے پر جمع ہو کر دو تین فٹ گہرے گڑھے کھودتے ہیں اور پانی میں گھنٹوں سکے تلاش کرتے ہیں۔ کچھ افراد انہیں ذاتی طور پر رکھ لیتے ہیں جبکہ کئی لوگ محکمہ آثار قدیمہ کو رضاکارانہ طور پر واپس بھی کر دیتے ہیں۔”

ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان محمد عثمان خالد نے بتایا کہ جن افراد نے سکے رضاکارانہ طور پر حکومت کو واپس کیے، ان کے لیے تعریفی اسناد اور انعامات کی سفارشات تیار کی جا رہی ہیں۔


سیلاب کی تباہ کاریاں اور تاریخی انکشافات

ڈیرہ غازی خان ڈویژن، خاص طور پر شجاع آباد، تونسہ، مظفرگڑھ، علی پور، خیرپور سادات جیسے علاقے حالیہ سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
دریائے سندھ اور چناب کے سیلابی پانی نے کئی دیہات کو گھیر لیا ہے، اور یونین کونسل سیت پور، پتن کندائی، گبر آرائیں سمیت درجنوں بستیاں زیرِ آب آ چکی ہیں۔

اسی تباہی کے دوران، سخی سرور کے نالے سے نکلنے والے خزانے نے علاقے کو بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔


سخی سرور: روحانیت سے تحقیق کی طرف ایک نیا سفر

یہ علاقہ پہلے ہی سلطان سخی سرور کے مزار کی وجہ سے مذہبی اور روحانی اہمیت رکھتا ہے۔ اب یہاں سے نکلنے والے تاریخی خزانے نے اسے سیاحت، تحقیق اور ثقافتی ورثے کے حوالے سے بھی نمایاں کر دیا ہے۔

ڈاکٹر احسان بھٹہ کے مطابق:

"یہ دریافت علاقے میں سیاحتی امکانات، مقامی روزگار اور تاریخی شعور کو فروغ دے گی۔”


مزید کھدائیاں اور چولستان تا ٹیکسلا تحقیق کا نیا مرحلہ

محکمہ آثار قدیمہ پنجاب کی ٹیم چولستان فورٹ، روہتاس فورٹ، ہڑپہ، اور ٹیکسلا میں پہلے ہی کھدائی کر رہی ہے۔ سخی سرور کو اس فہرست میں شامل کر کے ماہرین نے عندیہ دیا ہے کہ:

"پنجاب میں کئی ایسے علاقے ہیں جن کی مٹی کے نیچے ہزاروں سال پرانی تہذیبیں چھپی ہوئی ہیں۔ سخی سرور اس سلسلے کی ایک اہم کڑی بن چکا ہے۔”


نتیجہ: سیلاب کی کوکھ سے نکلتی تاریخ

ڈیرہ غازی خان کے سخی سرور میں حالیہ دریافت یہ ثابت کرتی ہے کہ قدرتی آفات بعض اوقات تاریخی ورثے کی نئی پرتیں بھی سامنے لے آتی ہیں۔
سیلاب نے جہاں تباہی مچائی، وہیں قدیم تہذیبوں کا خزانہ بھی انسانیت کے سامنے رکھا۔

اگر حکومت اور محققین سنجیدہ اقدامات کریں، تو سخی سرور تاریخی سیاحت، تحقیق اور ثقافتی شعور کے فروغ میں نہایت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button