کالمزناصف اعوان

خزاں ہے تو کیا ہوا ‘ بہار کو بھی تو آنا ہے…….ناصف اعوان

اگرچہ اس کو اتارنے کے لئے ٹیکسوں میں خوفناک حد تک اضافہ کیا جارہا ہے اس کے باوجود بات بنتی ہوئی نظر نہیں آرہی عوام اپنی ہر چیز بھی فروخت کر دیں تب بھی حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے

نجانے وہ دن کب آئے گا جب امن اور خوشحالی کی سویر طلوع ہو گی۔ ستتر برس بیت چکے مگر ابھی تک خوابوں کی تکمیل نہیں ہو سکی ۔جب بھی کوئی حکمران آیا اس نے سبز و شاداب باغات کی سیر کروائی عوام کو بیوقوف بنایا اور ان کے حصے کی دولت سمیٹی اور چلتا بنا۔ ہمارے ارباب اختیار ہمیشہ دوسروں ہی کو خوش کرنے میں مصروف رہے عوام بھولے تھے معصوم تھے لہذا وہ ان پر یقین کرتے ہوئے ان سے خوشحالی انصاف اور آسائشوں کی آس لگاتے رہے جو کبھی پوری نہیں ہو سکی ۔ پچھلے چند برسوں میں انہیں یہ احساس ہو گیا کہ ان کے خواب ‘ خواب ہی رہیں گے کیونکہ ملک پر قرضہ اتنا چڑھ چکا ہے کہ جسے اتارنا ممکن نہیں ۔اگرچہ اس کو اتارنے کے لئے ٹیکسوں میں خوفناک حد تک اضافہ کیا جارہا ہے اس کے باوجود بات بنتی ہوئی نظر نہیں آرہی عوام اپنی ہر چیز بھی فروخت کر دیں تب بھی حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے کیونکہ غیر پیداواری منصوبوں اور شاہانہ اخراجات نے صورت حال کو اور خراب کر دیا ہے۔ افسوس مگر یہ ہے کہ ہمارے سوچنے اور فکر کرنے والے اذہان اس حوالے سے دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ یہ عام لوگوں کا مسئلہ ہے جنہیں وہ گندی نالی کے حشرات سمجھتے ہیں لہذا وہ انہیں جینے کا حق ہی نہیں دے رہے وہ مریں جئیں غربت کے عفریت کی گرفت میں رہیں اس سے انہیں کوئی غرض نہیں ۔پہلے تو ان کے بارے میں ایک ابہام تھا مگر اب ان کی سوچ واضح ہوچکی ہے کہ انہوں نے اب تک دھوکا دیا ہے انہیں اُلو سمجھا ہے ۔اگر ان کی جائیدادوں محلوں اور بنک بیلنسوں کو سوشل میڈیا ظاہر نہ کرتا تو شاید اب بھی لوگ اندھیرے میں رہتے مگر اب وہ سب جان چکے ہیں ہر کسی کے چہرے کو پہچان گئے ہیں لہذا انہوں نے امید کا دامن چھوڑ دیا ہے اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ سب کے سب ان سے خفا ہیں ابھی ان کے ساتھ کچھ لوگ ہیں جنہوں نےماضی میں ان سے ذاتی مفادات حاصل کیے جائز ناجائز ذرائع سے اپنی تجوریوں میں کچھ نہ کچھ ٹھونسا لہذا آج وہ ان کے ہمقدم ہیں مگر عوام کی غالب اکثریت دوسری طرف کھڑی ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ اقتدار سے کوسوں دور ہے کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ جب غربت کے ماروں کو اختیارات مل گئے تو وہ دوسرے درجے کے شہری بن کر رہ جائیں گے ایسا ہونا ہی ہونا ہے اگرچہ اس وقت وہ (غریب عوام) حالت افلاس میں ہیں مسائل زدہ ہیں ان کے گھروں میں زندگی قہقہے نہیں لگا رہی مگر یہ طے ہے کہ انہوں نے غربت کی آکاس بیل کو اپنے اوپر سے اتار پھینکنا ہے یہ سوچ ان میں جنم لے چکی ہے لہذا وہ طفل تسلیوں اور دلاسوں سے بہلنے والے نہیں۔ان کے سامنے جب فراٹے بھرتی چمچماتی گاڑیاں گھومتی پھرتی ہیں اور وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ عالیشان رہائش گاہوں کے مالکان کروڑوں سے ارب پتی بن گئے ہیں اور کلبوں میں جاکر مفلوک الحالوں کا مذاق اڑاتے ہیں تو ان پر جو بیتتی ہے اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔اب جب ان کی روکھی سوکھی بھی اہل زر کو گوارا نہیں اور انہیں انصاف بھی نہیں مل رہا تو وہ بولنے لگے دہلیزیں پار کرنے لگے ہیں اپنا حق ملکی آئین کے مطابق مانگنے لگے ہیں تو ان کی بلند ہوتی آوازیں بھی انہیں گراں گزرتی ہیں۔
بہرحال عرض یہ ہے کہ ذہنوں میں جنم لینے والے نفرت کے طوفانوں کو محبت کی میٹھی زبان ہی سے روکا جا سکتا ہے لہذا ارباب اختیار کو اپنی پالیسی تبدیل کر لینی چاہیے اگرچہ وہ وقتی طور پر مطلوبہ نتائج حاصل کر لیتے ہیں مگر مستقلاً نہیں کیونکہ انسانی حیات بڑی تیزی سے بدل رہی ہے کبھی کسی کو کسی قصبے یا شہر میں جانا ہوتا تو زیادہ تر پیدل سفر کرنا پڑتا مگر جب وقت آگے بڑھا اور کچھ ایجادات ہوئیں تو سفر کرنا آسان ہو گیا آج ہم شاہراؤں سے ہوتے ہوئے دنوں کے کے بجائے چند گھنٹوں میں اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں لہذا ارتقائی عمل نے انسانی سوچ میں بڑی تبدیلی پیدا کر دی ہے اور وہ سوچنے لگے ہیں حالات کو سائنٹیفک بنیاد پر پرکھنے لگے ہیں اب ان کو یہ بات معلوم ہے کہ ان کے حقوق کیا ہیں اور فرائض کیا ہیں۔ اس صورت میں چند خاندان اور چند افراد اپنی مخصوص دھاک نہیں بٹھا سکتے جو بٹھاتے بھی ہیں وہ مختصر وقت کے لئے ہوتی ہے ۔خیر آج وطن عزیز جن حالات سے دوچار ہے یورپ کو بھی ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا مگر وہاں کے لوگوں نے سختیوں کے باوجود اپنی جد و جہد کو ترک نہیں کیا لہذا جو نظام انہیں چرکے لگا رہا تھا ان کا بری طرح استحصال کر رہا تھا اس سے بالآخر انہوں نے چھٹکارا حاصل کر لیا ۔ہم ایسے ملکوں کے لوگ جلد ہی اکتاہٹ محسوس کرنے لگتے ہیں تھک جاتے ہیں اور مایوسی دل و دماغ پر چھا جاتی ہے لہذا حالات سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں اس کمزوری کو اہل اختیار جان چکے ہیں لہذا وہ پاؤں بھی زمین پر پٹختے ہیں تو دل دہل جاتے ہیں مگر یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے اہل اقتدار دُور اندیش نہیں انہیں یہ علم نہیں کہ ایک ہی حالت کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوتا یقیناً وہ جانتے ہوں گے مگر جب وہ اپنی دولت جائیداد اور اختیارات پر نظر دوڑاتے ہیں تو خوش فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ وہ ان سے غریب عوام کو آگے نہیں آنے دیں گے مگر انقلابات کی تاریخ بھی ان کے سامنے ہو گی کہ بھوکے ننگے لوگ ہی انقلاب برپا کیا کرتے ہیں جو مہنگی خواب گاہوں میں سوتے جاگتے ہوں انہیں کیا ضرورت ہوگی لہذا موجودہ پالیسی جو اختیار کی جا رہی ہے اس پر نظر ثانی کی جائے ان آوازوں اور چیخوں کی طرف متوجہ ہوا جائے جو بلند ہو رہی ہیں کیونکہ یہ آوازیں اور چیخیں انسانوں کی ہیں جانوروں کی نہیں کہ جنہیں سنا نہ جائے بلکہ انہیں بھی سُنا جائے محسوس کیا جائے تب ہی ملک میں امن قائم ہو گا اور خوشحالی آئے گی کیا ہمارے کرتا دھرتا تنہائی میں بیٹھ کر تھوڑا غور وفکر کریں گے اگرچہ وہ سہل پسند ہیں اپنے دماغ پر زور دینے سے کتراتے ہیں مگر در پیش حالات کی سنگینی کے پیش نظر سوچ سمندر میں غوطہ زن ہونا ہو گا بصورت دیگر انہیں جدید دور کی مشکلات آن گھیریں گی جن سے نجات حاصل کرنا آسان نہیں ہو گا لہذا وہ حالت موجود سے باہر آئیں اور خلق خدا کی فریاد سنیں !

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button