لاہور (نمائندہ وائس آف جرمنی): "ایک ہفتے سے زائد ہو گیا ہے انٹرنیٹ کی وجہ سے کوئی کام نہیں چل رہا، پہلے راستے بند تھے اور اب انٹرنیٹ ہی کام نہیں کر رہا۔ انٹرنیٹ کی غیر اعلانیہ بندش کی وجہ سے بھی عام لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ 30 نومبر کے بعد غیر رجسٹرڈ شدہ وی پی اینز کو بند کر دیا جائے گا۔ اگرچہ اس میں فی الحال توسیع کی گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بیشتر وی پی این بند ہو چکے ہیں اور انٹرنیٹ بار بار بند ہونے اور سوشل میڈیا سمیت مختلف ایپس کام نہیں کر رہی۔
ملک میں رابطوں کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والی وٹس ایپ پر آڈیو میسج یا پھر تصویریں یا ویڈیو ڈاؤن لوڈ اور اپ لوڈ نہ ہونے کی شکایات بھی عام ہیں۔
یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب وزیر اعظم شہباز شریف نے ریاست کے خلاف ‘مذموم پروپیگنڈے’ میں ملوث افراد کی نشاندہی کے لیے 10 رکنی مشترکہ ٹاسک فورس تشکیل دینے کی منظوری دے دی ہے۔ اس جوائنٹ ٹاسک فورس کی سربراہی چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کریں گے۔اس ٹاسک فورس میں آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جینس، جوائنٹ ڈائریکٹر انٹیلی جینس بیورو (آئی بی) کے ساتھ ساتھ جوائنٹ سیکریٹری داخلہ، جوائنٹ سیکریٹری وزارتِ اطلاعات و نشریات، ڈائریکٹر سائبر ونگ ایف آئی اے، ڈائریکٹر آئی ٹی وزارت اور ڈی آئی جی اسلام آباد پولیس بھی شامل ہوں گے۔
جوائنٹ ٹاسک فورس کے لیے ٹی او آرز بھی طے کر لیے گئے ہیں۔ ٹی او آر کے مطابق ٹاسک فورس حالیہ احتجاج کے پیشِ نظر جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والے عناصر کی نشاندہی کرے گی۔
حکومت کے مطابق حالیہ دنوں میں پی ٹی آئی کے احتجاج کے حوالے سے پروپیگنڈا کیا گیا اور اسلام آباد میں سینکڑوں ہلاکتوں کا بتایا گیا ہے۔ پی ٹی آئی نے اب تک اسلام آباد میں 12 ہلاکتوں کا دعویٰ کیا ہے جس کی حکومت نے تردید کی ہے۔
حکومتی جوائنٹ ٹاسک فورس 10 دنوں میں اپنی سفارشات مرتب کر کے حکومت کو پیش کرے گی۔ ٹاسک فورس بدنیتی پر مبنی مہم چلانے والے ملک کے اندر اور باہر عناصر کی نشاندہی کرے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ بدنیتی پر مبنی مہم چلانے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی، ٹاسک فورس پالیسی میں خامیاں پر کرنے کے لیے اقدامات تجویز کرے گی، ٹاسک فورس جعلی اور من گھڑت خبریں پھیلانے والے عناصر کی شناخت کرے گی۔
پاکستان کی وزیرِ مملکت برائے آئی ٹی اور ٹیلی کمیونی کیشن شزہ فاطمہ خواجہ نے اس صورتِ حال میں کاروباری صارفین اور فری لانسرز پر زور دیا ہے کہ وہ بلاتعطل وی پی این تک رسائی کے لیے اپنے آئی پیز کا اندراج جاری رکھیں۔
ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت محفوظ مواصلات کی ضرورت سے پوری طرح آگاہ ہے اور وی پی این کو چالو کرنے اور استعمال کرنے کے عمل کو مزید ہموار کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔
شزہ فاطمہ خواجہ نے کہا کہ ’ہم صارفین پر زور دیتے ہیں کہ وہ پی ٹی اے کی ویب سائٹ کے ذریعے اپنے آئی پی پیز کا اندراج جاری رکھیں۔
‘عملی طور پر ملک میں وی پی این کام نہیں کر رہا’
حالیہ دنوں میں پی ٹی آئی کی ریلی کے وقت سے پورے ملک میں انٹرنیٹ بری طرح متاثر ہے اور جب صارفین نے وی پی این کے ذریعے انٹرنیٹ تک رسائی کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ انٹرنیٹ بھی بند ہو چکا ہے۔
30 نومبر کی تاریخ دینے سے قبل ہی فائر وال ایکٹو ہو چکی تھی اور ایسا مواد جو سیاسی مخالفین کے حوالے سے تھا وہ بند کر دیا گیا ہے۔ اس صورتِ حال میں بیشتر سوشل میڈیا ایپس اور سائٹس پاکستان میں تقریباً غیر فعال ہو چکی ہیں جن میں ٹک ٹاک، انسٹا گرام زیادہ متاثر ہو رہی ہیں جب کہ ایکس پہلے ہی بند کی جا چکی ہے۔
انٹرنیٹ اسپیڈ سے متعلق ویب سائٹ ‘ڈاؤن ڈٹیکٹر’ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کئی سوشل میڈیا سائٹس پر سروس نہ ملنے کی شکایات موصول ہوئی ہیں جن میں وٹس ایپ کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ اس پر وائس میسجز اور نارمل پیغامات بھیجنے میں بھی صارفین کو دشواری کا سامنا ہے۔
بعض صارفین کی جانب سے یہ شکایات بھی موصول ہوئیں کہ وٹس ایپ کمپیوٹر سے منسلک نہیں ہو رہا۔’دنیا فائیو جی، سکس جی پر جا رہی ہے اور ہمارے ہاں تھری جی بھی ٹھیک نہیں چلتا’
اتوار اور پیر کو انسٹا گرام اور ٹک ٹاک ایپ نہ چلنے کی شکایات بھی آتی رہی ہیں۔ اسی طرح یو ٹیوب اور فیس بک کے بارے میں بھی شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ ان کے سرور تک رسائی ممکن نہیں ہو رہی اور صارفین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
موجودہ صورتِ حال میں کام کرنا انتہائی دشوار ہو چکا ہے۔ اس وقت پیڈ وی پی این استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن وہ بھی کام نہیں کر رہے۔
پاکستان فری لانسر ایسوسی ایشن کے صدر اور سی ای او طفیل احمد خان نے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ضروری ہے کہ حکومت انٹرنیٹ کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز اور ماہرین شامل ہوں۔
یہاں پروپیگنڈا کے حوالے سے تو ٹاسک فورس بنی ہے لیکن انٹرنیٹ صارفین کی مشکلات کے حل کے لیے بھی ٹاسک فورس بننی چاہیے جو وقت اور ضرورت کے مطابق تمام تبدیلیوں سے صارفین کو آگاہ کر سکیں۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ وی پی این کی وائٹ لسٹنگ کا کہا جا رہا ہے۔ لیکن اگر تمام صارفین وائٹ لسٹنگ میں آ جائیں تو انہیں پھر انٹرنیٹ کا کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔
طفیل احمد خان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ہر ملک اپنی ضرورت کے مطابق غیر قانونی وی پی این سمیت مختلف ایپس بند کرتا ہے، دبئی میں واٹس ایپ بین ہے۔
اسی طرح پاکستان میں بھی اگر بین کرنا ہے تو بالکل کریں لیکن جو وی پی این قانونی اور رجسٹرڈ ہیں پھر انہیں کسی قسم کی مشکلات نہ ہوں۔ اس وقت پاکستان دنیا بھر میں فری لانسرز کے نمبر کے حوالے سے چوتھے نمبر پر ہے۔
تئیس لاکھ افراد فی لانس کام کر رہے ہیں اور ملک کے لیے سرمایہ کما رہے ہیں۔ لیکن اگر انہیں انٹرنیٹ کی سہولت فراہم نہ کی گئی تو یہ صنعت کمزور ہو جائے گی۔