
صدارتی انتخاب: ترک صدر اردوغان کو اپنے حریف کمال قلیچ دار پر برتری
ترکیہ کے اتوار کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوسرے راؤنڈ میں صدر رجب طیب اردوغان کو ان کے سیکولر حریف کمال قلیچ داراوغلو پر برتری حاصل ہوگئی ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق تازہ ترین نتائج کے مطابق صدر اردغان اپنی دو دہائیوں سے جاری مسلسل حکمرانی کو 2028 تک توسیع دینے کے قریب ہیں۔
سرکاری خبر رساں ادارے انادولو کے مطابق 96 فیصد ووٹوں کی گنتی کے بعد صدر اردوغان کو 52.3 فیصد ووٹ پڑے ہیں جب کہ ان کے حریف کمال قلیچ داراوغلو نے 47.7 فیصد ووٹ حاصل کر پائے ہیں۔
قبل ازیں اے ایف پی نے اپنی رپورٹ میں ترک صدر رجب طیب اردوغان کے جیتنے کے قوی امکانات ظاہر کیا تھا۔
نیٹو کے رکن ممالک میں سے سب سے طویل عرصے سے اقتدار میں رہنے والے رجب طیب اردوغان نے 14 مئی کو اپنے تمام مخالفین کے اندازوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے اپنے مخالف سیکولر امیدوار کمال قلیچ داراوغلو پر برتری حاصل کر لی تھی۔
قلیچ داراوغلو ایک مشترکہ سیاسی اتحاد کے امیدوار ہیں جس میں ترک صدر کے ناراض سابق اتحادیوں سمیت سیکولر قوم پرست اور دائیں بازو کے مذہبی قدامت پسند بھی شامل ہیں۔
اپوزیشن کے حامیوں کے خیال میں یہ ترکیہ کو ایک ایسی ریاست میں بدلنے سے روکنے کا آخری موقع تھا جس میں طاقت کا منبع صرف ایک شخص ہو۔
اردوغان کو ان کے طرز سیاست کی وجہ سے ان کے مخالفین عثمانی سلطانوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔
صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں ووٹ ڈالنے کے بعد کمال قلیچ داراوغلو نے کہا تھا کہ ’میں اپنے تمام شہریوں کو اپنا حق رائے دہی استعمال کی دعوت دیتا ہوں تاکہ اس آمرانہ حکومت سے نجات حاصل کرتے ہوئے ملک میں حقیقی آزادی اور جمہوریت آ سکے۔‘
رجب طیب اردوغان کو پہلے مرحلے میں برتری ایک ایسے وقت میں حاصل ہوئی تھی جب ترکیہ کی معیشت کی حالت کافی پتلی ہے اور تقریباً تمام رائے عامہ کے پولز نے ان کی شکست کی پیشن گوئی کی تھی۔
اتوار کو 69 سالہ ترک صدر استنبول کے ایک قدامت پسند ڈسٹرکٹ میں اپنی اہلیہ امینہ کے ساتھ ووٹ ڈالتے ہوئے تھکے ہوئے لگ رہے تھے لیکن وہ پرسکون نظر آئے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’میں اپنے شہریوں سے کہوں گا کہ باہر نکلیں اور بغیر کسی پریشانی کے اپنا حق رائے دہی استعمال کریں۔‘.
امیر بلگن نے ترک رہنما کی پکار پر لبیک کہا۔ اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے 24 سالہ نوجوان جن کا تعلق استنبول کے متوسط طبقے کے علاقے سے ہے، کہا کہ ’میں اردوغان کو ووٹ دینے جا رہا ہوں۔ ان کے جیسا اور کوئی نہیں ہے۔‘
کمال قلیچ داراوغلو پہلے مرحلے کے بعد ایک بدلے ہوئے آدمی بن کر ابھرے۔
سابق سرکاری ملازم کے سماجی اتحاد اور جمہوریت کے پرانے پیغام اور تارکین وطن کو فوری طور پر ملک بدر کرنے اور دہشت گردی سے لڑنے کی ضرورت کی تقریروں کو کافی پسند کیا گیا۔
انہوں نے دائیں بازو کی طرف جاتے ہوئے قوم پرستوں کو نشانہ بنایا جو پارلیمانی انتخابات میں بڑے فاتح بن کر ابھرے ہیں۔
74 سالہ کمال قلیچ داراوغلو نے ہمیشہ سی ایچ پی پارٹی بنانے والے فوجی کمانڈر مصطفیٰ کمال اتاترک کے پختہ قوم پرست اصولوں کی پاسداری کی۔
لیکن اس نے ان کی سماجی طور پر لبرل اقدار، جس پر نوجوان ووٹرز اور بڑے شہروں کے رہنے والے عمل پیرا ہیں، کو فروغ دینے میں ثانوی کردار ادا کیا۔
کرد نواز پارٹی کے ساتھ ان کے غیر رسمی اتحاد کی وجہ سے انہیں اردوغان کی جانب سے ’دہشت گردوں‘ کے ساتھ کام کرنے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔
حکومت کرد پارٹی کو کالعدم عسکریت پسندوں کے سیاسی ونگ کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اور قلیچ داراوغلو کے ترکیہ کی دائیں بازو کی جماعت سے اتحاد کی وجہ سے دو ہفتے قبل پہلے مرحلے میں تیسرے نمبر پر آنے والے قوم پرست رہنما نے اردوغان کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔