ڈی چوک اموات، پی ٹی آئی کا پارٹی موقف……حیدر جاوید سید
’’فائرنگ ہوئی نہ ہی کوئی ہلاک ہوا، ہلاک شدگان کی شناخت ثابت کریں میں وزارت داخلہ سے استعفیٰ دے دوں گا " ۔
آگے بڑھنے سے قبل دو باتیں عرض کئے دیتا ہوں اولاً یہ کہ 26 نومبر کو ڈی چوک پر انسانی جانوں کا ضیا ہوا، یہ کہنا سفید جھوٹ ہوگا کہ وہاں گولی نہیں چلی البتہ طویل عرصہ تک ڈبل ایجنٹ کا کردار نبھانے والے بعض سیاپا فروشوں کو اپنی حالیہ بیروزگاری کا بدلہ حقائق کو مسخ کرکے نہیں لیناچاہئے مگر یہ بھی کیا کریں ان کے مالکان کا ایجنڈا ہے یا مالکان کے ساجھے داروں کا۔
بعض وفاقی وزراء ان میں وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارث بھی شامل ہیں، 25 اور 26 نومبر کے واقعات کے حوالے سے کسی حد تک دروغ گوئی کا مظاہرہ کرتے رہے حالانکہ اگر حکومت ابتداء میں ہی انسانی جانوں کے ضیاع اور درست تعداد ہر دو کو تسلیم کرنے کے ساتھ مرنے والوں کی شناختیں ظاہر کردیتی تو یہ بہتر ہوتا بجائے اس جھوٹ کی تکرار کے کہ
’’فائرنگ ہوئی نہ ہی کوئی ہلاک ہوا، ہلاک شدگان کی شناخت ثابت کریں میں وزارت داخلہ سے استعفیٰ دے دوں گا ” ۔
ثانیاً پی ٹی آئی کو بھی سمجھنا ہوگا کہ اس سارے معاملے کو مذاق اس کے بے لگام سوشل میڈیا اور خود چند رہنمائوں کے غیرذمہ دارانہ بیانات نے بنایا۔ مثلاً قومی اسمبلی کے رکن لطیف کھوسہ نے ایک ٹی وی پروگرام میں خم ٹھونک کر کہا ’’ہمارے 278 افراد مارے گئے ” یہ اور بات ہے کہ وہ مرنے والوں میں سے چار یا آٹھ افراد کے نام نہ بتاسکے۔ مزید یہ کہ سلمان اکرم راجہ نے پہلے 8 پھر 12 اور آگے چل کر 20افراد کے جاں بحق ہونے کا دعویٰ کیا۔ سابق سیکرٹری اطلاعات رئوف حسن نے 27، قومی اسمبلی کے رکن شیر افضل مرت نے 50، علی محمد خان نے 12، سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاض اکرم پہلے درجنوں ہلاکتوں کی تکرار کرتے رہے بعدازاں انہوں نے کہا کہ 12 افراد جاں بحق ہوئے ہیں اسی دوران پی ٹی آئی کے ہم خیال سوشل میڈیا پیجز اور انفرادی اکائونٹس پر جاں بحق ہونے والوں کی تعداد کے حوالے سے سب سے خطرناک بیان محبوبہ خان کے نام سے موجود سوشل میڈیا اکائونٹ سے جاری ہوا موصوفہ نے دعویٰ کیا کہ ڈی چوک میں 623 افراد جاں بحق ہوئے اور 1200 زخمی جبکہ سعدیہ سلیم بٹ نے دعویٰ کیا کہ 300 کارکن جاں بحق ہوئے ہیں ، ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد کے حوالے سے ان بے لگام دعوئوں کا دفاع کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر نیا جھوٹ پھیلایا وہ یہ کہ ’’مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی والوں سمیت چند دوسرے مخالفین ہمارے ساتھیوں کے جاں بحق ہونے والوں کا مذاق اڑارہے ہیں‘‘۔
عین ممکن ہے کسی ایک آدھ یا چند بوزنوں نے گھٹیا پن کا مظاہرہ کیا ہو لیکن زیادہ تر ایک سوال ہی اٹھایا گیا کہ مرنے والوں کی تعداد بارے مبالغہ آرائی کی بجائے حقیقت سامنے لائی جائے۔
مزید ستم یہ ہوا کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا مجاہدین نے اس جھوٹ کو الہامی سچ مان لیا کہ پمز ہسپتال کی چھت پر سینکڑوں نعشیں جلائی گئیں ۔
بعض محب کہتے تھے فوج کی نگرانی میں اسلام آباد کے ہسپتالوں کے اندراج رجسٹروں سمیت دیگر شواہد غائب کردیئے گئے ( یہ موقف لطیف کھوسہ کے دعوے سے کشید کیا گیا ) ان سارے مقامی دعویداروں کا رزق اور معلومات سوشل میڈیا کے وہ اکائونٹس تھے جو بیرون ملک سے ہینڈل ہوتے ہیں۔
تمہیدی سطور کی آخری بات یہ ہے کہ اگر ابتدائی دعوے درست تھے تو بانی پی ٹی آئی عمران خان کے ’’ٹیوٹر ایکس‘‘ اکائونٹ سے بعض ویڈیوز اور ٹیوٹس ڈیلیٹ کیوں کی گئیں؟
اب آیئے پاکستان تحریک انصاف کے اس حتمی پارٹی موقف پر بات کرتے ہیں جو سوموار کو سابق وزیراعظم عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے بعد پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے پیش کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ
"پاکستان تحریک انصاف حالیہ اسلام آباد احتجاج میں سینکڑوں اموات کے بیانات و دعوئوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے ہمارے 12 کارکن شہید ہوئے”
(انہوں نے اس موقع پر 12 شہیدوں کے کوائف نہیں بتائے) یہ بھی کہا کہ ہم نے اپنے قائد عمران خان کو تمام تفصیلات سے آگاہ کردیا ہے۔
بیرسٹر گوہر علی خان کے اس موقف کے بعد لطیف کھوسہ اور شیر افضل مروت کے دعوئوں بالترتیب 278 اور 50 اموات کا کیا کرنا ہے اور محض سوال پوچھے جانے پر عامیانہ پن کا مظاہرہ کرنے والوں کا کیا کرنا ہے جو سوال کا جواب دینے کی بجائے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے شہیدوں کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔
ضمناً ایک بات عرض کروں کہ ایک مذاق عمران خان نے وزیر آباد کے قریب خود پر قاتلانہ حملے کے بعد کیا تھا جب چھ گولیاں عمران اسماعیل کے کپڑوں سے نکل کر گریں کا دعویٰ کیا ایسا ہی مذاق قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر پہلے فوجی آمر کے پوتے عمر ایوب خان نے کیا، فرمایا ڈی چوک پر ہمارے سینوں پر گولیاں اور آنسو گیس کے شیل آکر لگے۔
ہم ان سے نہیں پوچھتے کہ پھر وہ زخمی کیوں نہیں ہوئے کیونکہ یہ زندہ شہید سے مذاق قرار پائے گا۔ اسلام آباد احتجاج کے حوالے سے وزارت داخلہ کا کہنا تھا 87 افغان شہری گرفتار ہوئے پھر یہ تعداد 37 ہوگئی۔ جدید غیرملکی ساخت کے اسلحہ کی برآمدگی کا دعویٰ بھی کیا گیا
سوال یہ ہے کہ برآمد ہونے والے جدید غیرملکی ساخت کے اسلحہ اور گرفتار ہونے والے افغان شہریوں کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام کے سامنے لانے میں امر مانع کیا تھا اور کیا ہے؟
بیرسٹر گوہر علی خان کی بھی اس ضمن میں (مرنے والوں کی تعداد کے حوالے سے) بڑی ذمہ داری بنتی ہے کیا وہ اپنے دوارکان قومی اسمبلی کی جانب سے سینکڑوں اموات یا 50 اموات کے دعوئوں پر کوئی کارروائی کریں گے یا یہ کہ چھ دن تک جھوٹ پھیلانا ان کی پارٹی پالیسی کا حصہ تھا ؟
ثانیاً یہ کہ انہوں نے جب 12 کارکنوں کی اموات کی تصدیق کی تو ان 12 افراد کے شناختی کوائف سامنے کیوں نہیں لائے؟ کیا وہ اس بات سے لاعلم ہیں کہ ان کی جماعت کے تین شہیدوں نے سوشل میڈیا پر اپنی شہادتوں کی تردید کردی ہے۔
وہ 12 اموات میں ان تین کو شامل کرتے ہیں یا ان کے بغیر؟ ثالثاً اس وقت (تادم تحریر) تک دو مرحوم افراد کے جنازوں کی مری کے علاقوں میں اور ایک کے ڈیرہ غازی خان میں جنازہ ادا کئے جانے کی تصدیق ہوپائی۔
باقی مرنے والوں کی نماز جنازہ کہاں ادا کی گئی اس کی تفصیلات دیگر شواہد کے ساتھ عوام کے سامنے رکھنا پی ٹی آئی کی ذمہ داری ہے۔
ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے مرحوم کارکن سے آخری ملاقات کے دعویدار حامد میر کو ویسے یہ ضرور بتانا چاہیے کہ اسامہ بن لادن، کرنل امام، خالد خواجہ محترمہ بینظیر بھٹو اور اب شفیق لُنڈ وہ جس سے بھی آخری بار ملے "وہ پرلوک کیوں سدھار گیا” ؟ ۔
خیر اس جملہ معترضہ کو اٹھارکھئے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح سینکڑوں اموات کے دعوے غلط ہیں اسی طرح گولی نہ چلنے کا دعویٰ بھی غلط ہے البتہ یہ عجیب بات ہے کہ جو لوگ یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ 9 مئی کو روکا کیوں نہیں وہ 26 نومبر کے حوالے سے پوچھ رہے ہیں کہ گولی کیوں چلائی۔
لاریب گولی چلنے، چلانے کی نوبت نہیں آنی چاہیے تھی لیکن اس ضمن میں وزارت داخلہ، ڈی پی او اٹک اور چند دیگر ذمہ داران بھی کچھ دعوے کررہے ہیں۔
پورا سچ کیسے سامنے آئے گا کیونکہ حکومت اور پی ٹی آئی دونوں نے مسلسل چھ دن اتنا جھوٹ بولا کہ اب سچ بھی جھوٹ لگے گا۔
اس کے باوجود سچ سامنے لانا ہوگا۔ تحریک انصاف 12 جاں بحق ہونے والے کارکنوں کے کوائف سامنے لائے۔ حکومت اٹک اور چند دوسری جگہ پر غیرملکی اسلحہ مظاہرین کی جانب سے استعمال کرنے اور غیرملکی ساخت کے جدید اسلحہ کی برآمدگی اور درجنوں افغان شہریوں کی گرفتاری کے حقائق سامنے لائے۔
دونوں نے اگر ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا تو جھوٹ فروخت کرنے اور خریدنے والے جو زہر پھیلارہے ہیں اس کا خمیازہ سبھی کو بھگتنا پڑے گا۔
حرف آخر یہ ہے کہ جس طرح حکومت کی ساکھ کو محسن نقوی اور عطا تارڑ نے نقصان پہنچایا اسی طرح پی ٹی آئی کو اس کے بے لگام سوشل میڈیا واریئر نے جن کی بعض فیک خبروں پر گزشتہ روز پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی میں بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔