طیبہ بخاریکالمز

آخری پتہ کھیلا گیا تو گیم ختم ؟….تحریر : طیبہ بخاری

اند ر ہی اندر کڑھتے ہوئے خودد کلامی کی ” اس میں اضافہ ہوا نومبر کے آخرے عشرے کا“ پھر عادت سے مجبور ، تسلی دیتے ہوئے جواب دیا ”سب ٹھیک ہے “

ایک نوجوان افسر نے موجودہ حالات پہ تبصرے کو کہا تو اپنا ایک شعر سنانا کافی سمجھا کہ
خاموشی بے وجہ نہیں ہوتی
وقت پہ انتقام لیتی ہے
کسی نے سوال پوچھا ہے کہ
”ماضی کے 16دسمبر کے 2 خوں فشاں واقعات کی آہٹ سنائی دے رہی ہے،سقوط ڈھاکہ اور APS میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں تڑپتے جسم !کیا من حیث القوم ان تلخ یادوں سے کچھ سیکھ پائے یاذہنی اور عملی طور پر جامد و ساکن ہیں؟ “
اند ر ہی اندر کڑھتے ہوئے خودد کلامی کی ” اس میں اضافہ ہوا نومبر کے آخرے عشرے کا“
پھر عادت سے مجبور ، تسلی دیتے ہوئے جواب دیا ”سب ٹھیک ہے “
پھر سوالات کی بوچھاڑ ہو گئی ۔۔۔سب ٹھیک ہے توہم صدمے میں کیوں ہیں ۔۔؟
سب ٹھیک ہے تو سوشل میڈیا پر پابندیاں کیوں ۔۔؟
سب ٹھیک ہے تو کابینہ میں توسیع اور بعض قلمدان تبدیل ہونے کا امکان کیوں ۔۔؟
سب ٹھیک ہے تو پردہ اٹھنے کا انتظار کیوں ۔۔؟
سب ٹھیک ہے تو آڈیوز لیک کیوں ہورہی ہیں ۔۔؟
سب ٹھیک ہے تو ”گولی کیوں چلائی “ کا سوال کیوں زور پکڑ رہا ہے ، وضاحتیں کیوں کی جا رہی ہیں ۔۔۔؟
سب ٹھیک ہے تو ”آخری کارڈ“ استعمال کرنے کی بات کیوں کی گئی ۔۔؟
سب ٹھیک ہے تو کیوں کہا جا رہا ہے کہ لال مسجد سے بھی بڑا سانحہ کرایا گیا مقامی اور عالمی سطح پر اٹھایا جائے۔۔؟
ایک جماعت کیوں یہ کہہ رہی ہے کہ اس کے 5 ہزار کارکن لاپتہ ہیں۔۔؟
ضلعی سطح پر لاپتہ کارکنوں کا ڈیٹا کیوں اکٹھا کیا جا رہا ہے ۔۔؟
لوگوں کا کاروبار، گھر بار کیوں اور کس کی خاطر لٹ رہا ہے۔۔؟
ڈ ی چوک پرجو آئے تھے انہیں یہ تو یقین تھا کہ گرفتار کیا جائے گالاٹھی چارج ہوگا،ان سب کا ایک مان تھا۔۔۔۔مگر ان کی جان بھی گئی اور مان بھی گیا
انہیں یقین نہیں تھا اپنوں کے ہاتھوں ان کے ساتھ یہ ہوگا۔۔۔؟
ٹوئٹس سے مشکلات کیوں کھڑی ہو جاتی ہیں ۔۔۔؟
کسی سے ملنے کی اجازت نہ دی جائے تو افواہیں کیوں زور پکڑ تی ہیں۔۔۔؟
الگ الگ باتیں،کہیں ایک ہی بات کے دو حصے ۔۔۔ کنفیوژن کون ختم کرسکتا ہے۔۔۔؟
کیا گولیوں، ڈنڈوں سے معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔۔۔؟
حالات مزید خراب نہیں ہونگے اس کی گارنٹی ہے کسی کے پاس ۔۔۔؟
احتجاج کرنیوالے کہہ رہے ہیں کہ وہ پر امن تھے اور آئندہ بھی احتجاج کریں گے۔۔۔کیا پھر اسی طرح روکا جائے گا ؟
کیا بات چیت کے تمام دروازے بند ہو چکے اور اگر کوئی دروازہ کھلا ہے تو اس کی تفصیل عوام کے سامنے کیوں نہیں لائی جا رہی ۔۔؟
مذاکرات کالعدم تنظیموں کیساتھ، دشمن ریاستوں کیساتھ ہو سکتے ہیں تو سیاسی جماعتوں کیساتھ کیوں نہیں۔۔۔؟
سوال یہ بھی ہے کہ
جنہیں یہ نہیں معلوم کہ سنگجانی اسلام آباد کے اندر ہے یا باہر انہیں عوام کے دکھ درد کا کیا معلوم ۔۔۔؟
کیا آپ جانتے ہیں ؟ پاکستان سمیت جنوبی ایشیائی ممالک میں ذہنی صحت کے مسائل کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے ، ذہنی صحت کے مسائل میں مبتلا 80فیصد پاکستانیوں کو علاج تک رسائی حاصل نہیں ۔۔۔۔۔
کون کر رہا ہے 80فیصد پاکستانیوں کی ذہنی مسائل میں مبتلا ، درد سر بن چکے ہیں سیاستدان ۔۔۔بات بات پہ دھمکیاں ، ایک دوسروں کو طعنے ، تنقید کی بجائے تذلیل ، جمہوریت کے نام پر آمرانہ طرز عمل ۔۔۔ایک دوسرے کودہشتگرد ، ریاست دشمن کہنا، بات چور ۔ ڈاکو، لٹیرے ، پیٹ پھاڑنے اور چوک چوراہوں میں لٹکانے سے بڑھ کراب جماعتوں کو ختم کرنے یا پابندیاں لگانے تک جا پہنچی ہے ۔
عوام احتجاجوں سے ،ظلم و تشدد سے ، مہنگائی سے، بے روزگاری سے پریشان ہیں
انسٹیٹیوٹ فار پبلک اوپینین ریسرچ( آئی پور)کے حالیہ سروے میں تقریباً ہر 10 میں سے7 شہری کسی بھی صورت احتجاج کی حمایت کےلئے تیار نہیں ہیں۔ 82 فیصد نے روزمرہ کے معاملات ، 74فیصدنے کاروبار متاثر ہونے کا شکوہ کیا۔سروے میں جڑواں شہروں سے1 ہزار سے زائد افراد نے حصہ لیا، یہ سروے 26سے 29نومبر 2024 کے درمیان کیا گیا۔
پاکستان سافٹ ویئر ہاو¿س ایسوسی ایشن (پاشا) کے مطابق 1 گھنٹے کے لیے انٹرنیٹ کی بندش سے آئی ٹی انڈسٹری کو 9 لاکھ 10 ہزار ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے۔انٹرنیٹ آئی ٹی انڈسٹری کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے، موجودہ صورتِ حال میں 99 فیصد آئی ٹی کمپنیوں نے خلل کی نشاندہی کی۔ آئی ٹی انڈسٹری 30 فیصد کے حساب سے ترقی کر رہی ہے، جس کی برآمدات 3.2 ارب ڈالرز تک پہنچ گئی ہیں۔ آئی ٹی میں پاکستان کا مقابلہ بڑے ممالک کے ساتھ ہے۔۔۔۔ سوال یہ ہے کہ یہ مقابلہ روز روز کے خلل اور بندشوں سے کیسے ہو گا ۔۔؟
انٹرنیٹ پر پابندی پر امریکی تھنک ٹینک نے بھی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ” انٹرنیٹ پر پابندی پاکستان کو معاشی طور پر مہنگی پڑ سکتی ہے ۔ یہ پابندیاں مختصر مدت کے لیے سیاسی طاقت فراہم کر سکتی ہیں لیکن طویل مدتی معاشی عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہیں“۔ تھنک ٹینک کے نائب صدرڈینیئل کاسترونے ملک کی خود مختاری کو تسلیم کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا کہ جو ممالک یہ فیصلہ کررہے ہیں ان کا مقصد کیا ہے اور کیا وہ طویل المدتی مفادات پر قلیل مدتی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں؟
ایک اور اہم رپورٹ بھی سامنے آئی ہے جس میں واضح الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام کے پہلے جائزہ میں3 بڑے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ نیٹ ٹیکس ریونیو ، تعلیم اور صحت کے اخراجات کیلئے طے شدہ ہدف اور مقامی کرنسی ڈیبٹ سکیورٹیز کی میچورٹی حاصل نہیں کی جاسکی ،2652ارب کا ٹیکس ریونیو حاصل نہیں ہوا /85ارب کا شارٹ فال ، 22 سٹرکچرل بینچ مارک پر جولائی 2025 تک عملدرآمد ہوگا،آئی ایم ایف نے پاکستان کو پروگرام کے 22سٹرکچرل بینچ مارک ہیں جن کو حاصل کرنا ہے ان میں سے 18 وفاقی حکومت اور 4سٹیٹ بینک سے متعلقہ ہیں ۔
حالیہ احتجاج کے باعث جڑواں شہروں میں تقریباً ایک ہفتے کاروبار بند رہا، ملک کو روزانہ 192 ارب روپے کا کاروباری نقصان پہنچا، متعدد موٹرویز اور راولپنڈی، اسلام آباد کے داخلی اور خارجی راستے تقریباً 700 کنٹینرز لگا کر بند کیے گئے۔سیاسی اور کاروباری سرگرمیاں شدید متاثر ہوئیں۔لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا احتجاج سے نمٹنے کا طریقہ کار درست تھا اور کیا بروقت مذاکرات سے معاملہ سلجھایا نہیں جا سکتا تھا؟
اب ایک اور جماعت کہہ رہی ہے کہ 7 دسمبر تک مدارس بل پر دستخط نہ ہوئے تو 8 دسمبر کو پشاور میں آئندہ کا لائحہ عمل دیں گے۔
آخر میں بڑا سوال کہ ”بڑے بڑے چپ کیوں ہیں ۔۔آخری پتہ کب کھیلا جائے گا جلد یا بدیر ۔۔زخموں پہ مرہم کون اور کیسے لگایا جائے گا “
تو اس کا جواب” تاریخ چپ نہیں رہتی، جلیانوالہ باغ والے نہیں بھولے ، گڑھی خدا بخش والے،ماڈل ٹاﺅن والے نہیں بھولے، ڈی چوک والے بھی نہیں بھلائے جا سکیں گے ۔۔۔ آخری پتہ کھیلا گیا تو گیم ختم ۔۔۔زخموں کا علاج کرنا ہو گا وگرنہ ناسور پھیلے گا “
آخر میں سوال کرنیوالے کو پھر اپنا شعر سنایا
زندگی بچھڑنے کی داستانِ عظیم
موت ملاقات کی ضمانت ہے

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button