حیدر جاوید سیدکالمز

آزاد کشمیر کی ’’نان کسٹم پیڈ‘‘ مخلوط حکومت….حیدر جاوید سید

عوامی ایکشن کمیٹی کا موقف ہے کہ آرڈیننس معطل نہیں منسوخ کیا جانا چاہیے تھا یا پھر صدر آزاد کشمیر اسے واپس لیں۔

5 دسمبر کی دوپہر جب یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں پاکستان کے زیرانتظام آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کی اپیل پر غیر معینہ مدت کیلئے شروع ہونے والی ریاست گیر ہڑتال کے پہلے دن کی مکمل ہڑتال نے سماں باندھ رکھا ہے۔
عوامی ایکشن کمیٹی کے زیراہتمام کچھ عرصہ قبل جاری ہونے والے ایک عوام دشمن صدارتی آرڈیننس کے خلاف آزاد کشمیر کے درجنوں چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
نومبر کا آخری ہفتہ مظفر آباد میں بسر ہوا تب مختلف الخیال سیاسی کارکنوں اور اہل دانش سے دوسرے معاملات کے علاوہ اس صدارتی آرڈیننس پر بھی تفصیل سے بات ہوئی۔ اس آرڈیننس کو 5 دسبر سے شروع ہونے والی غیرمعینہ مدت کی ہڑتال سے دو تین روز قبل آزاد کشمیر سپریم کورٹ نے معطل کردیا تھا ،
عوامی ایکشن کمیٹی کا موقف ہے کہ آرڈیننس معطل نہیں منسوخ کیا جانا چاہیے تھا یا پھر صدر آزاد کشمیر اسے واپس لیں۔
آگے بڑھنے سے قبل سپریم کورٹ آزاد کشمیر سے معطل ہونے والے صدارتی آرڈیننس پر کچھ بات کرلیتے ہیں۔ آرڈیننس کے تحت آزاد کشمیر میں رجسٹر سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں کسی بھی قسم کے احتجاج کے لئے ایک ہفتہ قبل متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دیں گی (ظاہر ہے کہ درخواست میں وجہ احتجاج تحریر کرنا ہو گی ) ڈپٹی کمشنر 7 دن میں اس درخواست کو منظور یا مسترد کرنے کا فیصلہ کرے گا۔
درخواست کی منظوری کی صورت میں وقت، تاریخ او جگہ کا تعین ڈپٹی کمشنر کرے گا۔ ڈپٹی کمشنر درخواست مسترد کردیتا ہے تو اس کے خلاف کمشنر سے اپیل کی جاسکتی ہے جو 12 دن کے اندر اس پر فیصلہ کرے گا ۔
آرڈیننس جاری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
آزاد کشمیر کے مختلف الخیال سیاسی کارکن کہتے ہیں کہ آزاد کشمیر کی "نان کسٹم پیڈ” مخلوط حکومت میں شامل جماعتیں ہی نہیں بلکہ وائٹ ہاوس اور ریڈ ہائوس والے بھی عوامی ایکشن کمیٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور بجلی کے نرخوں کے خلاف اس کی تحریک کی کامیابی سے خوفزدہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ عدالت سے معطل ہونے والے صدارتی آرڈیننس میں احتجاج کا درخواستی حق رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں و تنظیموں کو مشروط طور پر دیا گیا۔
مختلف الخیال سیاسی کارکن اس آرڈیننس کو مارشل لاء کا نام بھی دیتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کا قانون تو دنیا میں کہیں بھی نہیں۔
اپنے ان مختلف الخیال دوستوں سے تبادلہ خیال اور دیگر رابطوں کے بعد میں یہی سمجھ پایا کہ مخلوط حکومت سے زیادہ وائٹ ہائوس اور ریڈ ہائوس والے عوامی ایکشن کمیٹی کی مقبولیت ، تحریک میں قوم پرستوں کے کردار اور تحریک کے دوران بعض جگہ لگنے والے نعروں سے خوفزدہ ہیں رجسٹرڈ تنظیموں کے لئے مشروط احتجاج کا یہ قانون اولاً عوامی ایکشن کمیٹی کے خلاف لایا گیا ثانیاً اس کے ذریعے مختلف نظریات رکھنے والی طلباء تنظیموں کوبھی دیوار سے لگادیا گیا کیونکہ طلبا تنظیمیں بھی رجسٹرڈ نہیں ہوتیں۔
دوسری جس بات پر سیاسی کارکنوں اور عام شہریوں کو برہم پایا وہ تھی اس آرڈیننس کے اجراء کے لئے مخلوط حکومت میں شامل پیپلزپارٹی کے وزراء کی رضامندی۔
یہ اس لئے بھی درست تھی کہ صدر آزاد کشمیر ازخود تو آرڈیننس کے اجراء کا اختیار نہیں رکھتا آرڈیننس کابینہ کی منظوری پر ہی جاری کیا جاتا ہے۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ پی پی پی، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت کے وزراء ذہنی سیاسی اور فکری طور پر سیاسی بلوغت سے محروم ہیں یا پھر وزارتوں کے تام جھام اور وائٹ ہائوس و ریڈ ہائوس کی خوشنودی نے ان کا منہ بند رکھا اور انہوں نے آرڈیننس کے حوالے سے اقرار میں گردن ہلانے کو ملازمت کی ضرورت سمجھا؟
ایک رائے یہ بھی سامنے آئی چونکہ آزاد کشمیر اور اسلام آباد کی حکومتیں بجلی کے نرخوں میں جس کمی پر عوامی احتجاج کی بدولت رضامند ہوئی تھیں اس میں تبدیلی زیرغور ہے۔
آزاد کشمیر کے چیف سیکرٹری، وزیراعظم اور بعض پاکستسانی اداروں کے آزاد کشمیر میں زونل سربراہان اس معاملے پر لوگوں کی ذہن سازی کے لئے منظم انداز میں سرگرم ہیں۔
سیاسی مذہبی اور سماجی طور پر موثر سمجھے جانے والے لوگوں کو انفرادی طور پر ملاقاتوں کے لئے مدعو کر کے انہیں بجلی کے نرخوں میں کمی ہونے کی وجہ سے ’’پیدا ہونے والے مسائل‘‘ پر بریف کیا جاتا ہے یہی نہیں بلکہ یہ تاثر بھی دیا جاتا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں کمی کی وجہ سے آزاد کشمیر کا ترقیاتی بجٹ متاثر ہوا ہے۔
بعض دستیاب شواہد ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ فیصلہ سازوں اور ’’مالکوں‘‘ کا یہ موقف اس لئے درست نہیں کہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے 21 ارب روپے دینے کا اعلان کیا تھا۔ یہ 21 ارب روپے بجلی کے نرخوں میں کمی کے حوالے سے دیئے گئے۔
آزاد کشمیر کے حکمران طبقات اور ’’مالکان‘‘ ہر دو کا موقف ہے کہ وزیراعظم پاکستان کی اعلان کردہ رقم سبسڈی ہے اور یہ سبسڈی ایک مالی سال کے لئے ہے (بعض اسے 31 دسمبرتک بھی بتاتے ہیں)
آزاد کشمیر میں لوگوں کا کہنا تھا کہ صدارتی آرڈیننس کے اجراء میں مخلوط حکومت (جسے ہمارے ایک نوجوان عزیز سید جابر علی ایڈووکیٹ ’’نان کسٹم پیڈ حکومت‘‘ بھی کہتے ہیں) کی رضامندی اس لئے شامل تھی کہ حکومت اگلے مرحلے میں بجلی کے نرخوں میں کمی کے فیصلے کو واپس لینے کی تیاریوں میں ہے اس لئے ایسا قانون بنایا گیا جس سے عوامی ایکشن کمیٹی اور طلبا تنظیموں سمیت دیگر غیررجسٹرڈ تنظیموں کے ممکنہ احتجاج کا پیشگی بندوبست کیا جاسکے۔
بادی النظر میں یہ رائے درست محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ امر بھی اپنی جگہ درست ہے کہ "نان کسٹم پیڈ” مخلوط حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں یہ خطرہ محسوس کررہی ہیں کہ اگر عوامی ایکشن کمیٹی کا بندوبست نہ کیا گیا تو مستقبل میں یہ تنظیم سیاسی جماعتوں کی بڑی حریف ہوگی۔ یہ بھی عرض کردوں کہ دائیں بازو کی ایک دو سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے اس تحریر نویس سے تبادلہ خیال کے دوران بڑی حقارت کے ساتھ اپنی فہم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ” سیاسی جماعتوں کی جگہ اگر تاجر اور دکاندار وغیرہ فیصلے کرنے لگیں گے تو یہ درست نہیں ہوگا ” ان سے دریافت کیا کہ
سیاسی جماعتوں کے حامی آسمان سے اترتے ہیں یا ان کی فصل کاشت ہوتی ہے؟
سیاسی جماعتوں میں سماج کے مختلف طبقوں کے لوگ ہی ہوتے ہیں اور اگر سیاسی جماعتیں رائے عامہ کے جذبات و احساس اور ان کے مسائل سے چشم پوشی کرکے اقتدار اقتدار کھیلنے لگ جائیں تو خالی جگہ پُر کرنے کے لئے کوئی تو آگے آئے گا۔
نیز یہ کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے ہمدردوں اور متحرک لوگوں میں بھی تو مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن و ہمدرد ہی نہیں اضلاع کی سطح کے عہدیدار بھی شامل ہیں۔
ساعت بھر کے لئے رکئے یہاں بدلتے ہوئے عمومی عوامی مزاج اور فہم کے ذاتی تجربے کا ایک واقعہ عرض کئے دیتا ہوں۔
مظفر آباد میں ا پنے حالیہ قیام کے دوران اپتر چھتر کے ایک گیسٹ ہائوس میں مقیم تھا۔ قیام والی جگہ سے روزانہ صبح سنٹرل بار (اولڈ سیکرٹریٹ) کے مقابل ’’مسٹر بکس‘‘ پر قائم عارضی آستانے کے لئے روانہ ہوتا۔ گیسٹ ہائوس کے معاون ایک دن رکشہ لے آئے اس میں بیٹھتے ہوئے میں نے دریافت کیا ’’بھائی صاحب آپ نے جگہ سمجھ لی مجھے کہاں جانا ہے؟‘‘
جواب ملا جی نہیں۔ عرض کیا ’’اولڈ سیکرٹریٹ کے سامنے مسٹر بکس پر جانا ہے‘‘۔ اب اس کا سوال تھا، پاکستان سے آئے ہو؟ جی، میں نے عرض کیا۔
کہنے لگا، آپ لوگ ہمیں درجہ سوئم کا شہری کیوں سمجھتے ہیں۔ آپ کے ادارے آزاد کشمیر میں ہر قیمتی جگہ پر قابض ہوجاتے ہیں اپر چھتر سے اولڈ سیکرٹریٹ تک کے دس بارہ منٹ کے سفر میں اس رکشہ ڈرائیور نے نصف درجن کے قریب مقامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہاں پاکستانی ادارے قابض ہیں۔
پھر کہنے لگا آپ کیا کرتے ہیں۔ یہ بتانے پر کہ میں صحافی ہوں اس نے کہا ہمارے ہاں تو سارے بلیک میلر صحافی بنے ہوئے ہیں چند ایک ہوں گے جو خاندانی طور پر بہتر زندگی بسر کررہے ہوں گے یہی چند لوگ عوام کی بات کرتے ہیں۔
ایک مختصر وقفے کے بعد اس نے پھر کہا، بھائی میری باتوں پر ناراض نہ ہونا بس آپ واپس جاکر پاکستانی حکومت اور اداروں کو یہ ضرور بتائیں کہ ’’آزاد کشمیر لوٹ کا مال نہیں ہے‘‘۔
اس سے ملتی جلتی باتیں کچھ اور لوگوں سے بھی سنیں۔ فی الوقت یہی عرض کرسکتا ہوں کہ 5 دسمبر سے شروع کامیاب ہڑتال نے آزاد کشمیر کی "نان کسٹم پیڈ” مخلوط حکومت اور ’’مالکان‘‘ ہر دو کو آئینہ دیکھادیا ہے۔
عوامی ایکشن کمیٹی اور اس کے ہم خیالوں کا یہ مطالبہ بجا ہے کہ جمہوریت اور عوام دشمن آرڈیننس کسی تاخیر کے بغیر واپس لیا جانا چاہیے۔ حرف آخر یہ ہے کہ اگر وقت ہو تو آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں خصوصاً مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے رہنمائوں کو اپنے اپنے گریبان میں ضرور جھانک لینا چاہیے، گریبان سے اچھا آئینہ اور نہیں ہوتا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button