لاہور (نمائندہ وائس آف جرمنی):پاکستان موبائل انٹرنیٹ کی رفتار کے لحاظ سے 111ممالک میں سے 100 ویں نمبر پر اور براڈبینڈ کی رفتار میں 158 ممالک میں141ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ انٹرنیٹ کی سست رفتار پاکستان میں ڈیجیٹل ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی ہے۔
موبائل اور براڈ بینڈ انٹرنیٹ کی اسپیڈ پر نگاہ رکھنے والی عالمی تنظیم اوکلا اسپیڈ ٹیسٹ گلوبل انڈکس نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان موبائل اور براڈ بینڈ انٹرنیٹ دونوں کی رفتار کے لحاظ سے عالمی سطح پر 12 فیصد نیچے آ گیا ہے۔ ملک میں انٹرنیٹ کے مسائل ڈیجیٹل سرگرمیوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
اس انڈکس کے مطابق پاکستان اس سال اکتوبر تک موبائل انٹرنیٹ کی رفتار میں 111 ممالک میں سے 100 ویں اور براڈ بینڈ کی رفتار میں 158 ممالک میں سے 141 ویں نمبر پر تھا۔
پاکستان میں عام صارفین کو پچھلے کئی مہینوں سے بہت سست رفتار انٹرنیٹ رابطوں کا سامنا ہے، جس میں واٹس ایپ پر میڈیا مواد کو ڈاؤن لوڈ کرنے میں دشواری اور بار بار کنیکٹیویٹی کے مسائل شامل ہیں۔
ان رکاوٹوں نے کئی طرح کے خدشات کو جنم دیا ہے، خاص طور پر ایک ایسے وقت پر جب پاکستان میں انٹرنیٹ تک رسائی میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) تک بھی محدود رسائی کی اطلاعات ہیں۔
پاکستان میں وی پی این تک رسائی بھی محدود ہوتی جا رہی ہے، جس کے ذریعے بہت سے پاکستانی شہری بلاک شدہ ویب سائٹس جیسے کہ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) استعمال کرنے کے لیے انحصار کرتے ہیں۔
پاکستان میں عام صارفین کو پچھلے کئی مہینوں سے بہت سست رفتار انٹرنیٹ رابطوں کا سامنا ہےپاکستان میں عام صارفین کو پچھلے کئی مہینوں سے بہت سست رفتار انٹرنیٹ رابطوں کا سامنا ہے
ورلڈ پاپولیشن ریویو، جو اوکلا کے اسپیڈ ٹیسٹ گلوبل انڈکس اور کیبل ڈیٹا کا استعمال کرتا ہے، کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ کی اوسط ڈاؤن لوڈ رفتار7.85 ایم بی پی ایس ہے۔
پاکستان کے ڈیجیٹل منظرنامے کی صورتحال سے متعلق رپورٹوں کے مطابق مئی 2023 میں ملک کو عالمی سطح پر انٹرنیٹ کی سب سے کم رفتار والے ممالک میں شمار کیا گیا تھا۔ اوسط براڈ بینڈ ڈاؤن لوڈ اسپیڈ 15.52 ایم بی پی ایس اور موبائل انٹرنیٹ ڈاؤن لوڈ اسپیڈ 19.59 ایم بی پی ایس رہی تھی۔
اس سے قبل اگست میں حکومت نے تصدیق کی تھی کہ وہ سائبر سکیورٹی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنے ”ویب مینجمنٹ سسٹم‘‘ کو اپ گریڈ کر رہی ہے۔
حکومتی یقین دہانیوں کے باوجود ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی انسانی حقوق کی تنظیموں نے خطرے کے خلاف تنبیہ کی ہے۔ ان تنظیموں نے پاکستانی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ ملک بھر میں انٹرنیٹ کی سست رفتاری اور نگرانی کی ٹیکنالوجی کے استعمال کے بارے میں مزید شفافیت پیدا کریں۔
ایمنسٹی نے حکومت کی جانب سے ان ٹیکنالوجیز کے استعمال کے بارے میں وضاحت کی کمی کو ”تشویشناک‘‘ قرار دیا ہے، کیونکہ یوں آن لائن مواد کو بلاک، سست یا دوسری صورت میں محدود کیا جا سکتا ہے۔
پاکستانی وزارت داخلہ نے انٹرنیٹ کی جاری پریشانیوں میں اضافہ کرتے ہوئے وی پی این کے غیر منظم استعمال پر پابندی عائد کرنے پر زور دیا ہے۔ اس وزارت کا خیال ہے کہ دہشت گرد پرتشدد سرگرمیوں اور آن لائن مالی لین دین کے لیے وی پی این استعمال کرتے ہیں۔
اسلام آباد میں وزارت داخلہ کا موقف ہے کہ وی پی این کا ”فحش اور توہین آمیز مواد‘‘ تک رسائی سمیت کئی غیر قانونی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس وزارت کا کہنا ہے کہ صرف غیر رجسٹرڈ وی پی این کے استعمال کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکومت وی پی این تک رسائی کو محدود کرنے سے انکار کرتی ہے اور رکاوٹوں کو ”تکنیکی خرابی‘‘ قرار دے رہی ہے، تاہم حالیہ حکومتی اقدامات نے ملک میں انٹرنیٹ تک رسائی کو مزید محدود اور مشکل بنا دیا ہے اور شفافیت اور سنسرشپ سے متعلق بھی کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔