شام، بشار رفت و ہئیت التحریر آمد،(قسط:2)…حیدر جاوید سید
شام میں الاسد خاندان کا 54 سالہ اقتدار ختم ہوا۔ بشار الاسد کے والد حافظ الاسد بھی ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آئے تھے
ایک رائے یہ ہے کہ بشار الاسد نے ملک کو بڑے خون خرابے سے بچانے کے لئے صدارت اور میدان چھوڑنے کا فیصلہ کیا نیز یہ کہ انہوں نے ہئیت التحریر کے خلاف ریاستی اقدام کے لئے اپنے اتحادیوں اور سرپرستوں سے مشاورت ہی نہیں کی تو پھر شکست کیسی؟
کیا پسپائی اورشکست کے فرق کو غلط ملط کردیا جائے۔ ایسا نہیں ہے حقیقت یہ ہے کہ بشار رجیم کوشکست ہوئی۔ شکست کی وجوہات جاننے کی ضرورت ہے۔ وہ لوگ جو یہ کہہ رہے ہیں بشار کی شخصی آمریت کا ’’بولورام‘‘ ہوا سینے پر ہاتھ رکھ کر یہ بھی بتادیں کہ اس بولو رام میں مالی اور دوسری معاونتیں کرنے والے اردن، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت میں کون سی عوامی جمہوریت ہے۔( یاد رہے اس سوال کا مقصد بشار رجیم کے جرائم کی پردہ پوشی ہرگز نہیں )
ان ممالک میں بھی تو خاندانی بادشاہتیں مسلط ہیں کیسے مسلط ہوئیں یہ بلاد عرب کی تاریخ میں لفظ لفظ لکھا ہے۔ برطانوی سامراج نے شریف مکہ کی جگہ آل سعود کی سرپرستی کے وقت شریف مکہ کے خاندان کو تین ملکوں کی حکومتیں عطا کی تھیں۔ عراق، شام اور اردن۔ عراق ایک طویل شخصی و مارشل لائی حکومت بھگت کر موجودہ دور میں ہے۔
شام میں الاسد خاندان کا 54 سالہ اقتدار ختم ہوا۔ بشار الاسد کے والد حافظ الاسد بھی ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آئے تھے۔ اردن میں البتہ ہاشمی خانوادے کے شریف مکہ کی اولاد آج بھی برسراقتدار ہے۔ شام کی فوجی حکومت نے عرب قوم پرستی کی کوکھ سے جنم لیا تھا یا ردِعمل میں ؟ یہ بھی ایک سوال ہے ۔
1948ء سے 1974ء کے درمیان ہونے والی 4 عدد عرب اسرائیل جنگوں میں اسرائیل نے مصر، اردن، شام، عراق اور لبنان کی جو درگت بنائی و عرب تاریخ کا حصہ ہے۔ عراق اور شام میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے فوجی حکمرانوں نے تب خود کو قوم پرست عرب اور سوشلسٹ نظریات کا حامل ظاہر کیا بعث پارٹی عراق اور بعث پارٹی شام اہل اقتدار کی جماعتیں قرار پائیں۔
خیر عراق ایک الگ موضوع ہے ہم شام کے حالیہ منظرنام پر بات کررہے ہیں۔ 2011ء میں بشار الاسد کے خلاف جو مسلح مزاحمت شرع ہوئی اس میں اہم اور بنیادی کردار النصرہ فرنٹ اور مجاہدین اسلامی الشام ، الجہاد الاسلامی برائے خلافت کا تھا۔ النصرہ فرنٹ کو قطر نے گود لیا 2011ء سے 2015ء تک کے 4 برسوں میں قطر نے اپنے سالانہ قومی بجٹ میں النصرہ فرنٹ کے لئے باقاعدہ 2 ا رب ڈالر سالانہ مختص کئے۔
مجاہدین اسلامی الشام کے لئے کویت اور سعودی عرب کے ساتھ اردن نے بازو کھولے اور وسائل فراہم کئے۔ بشارالاسد کی حکومت ابتداً تنہا تھی پھر اچانک القاعدہ اور داعش کے جنگجو اس جنگ کا حصہ بنے انہوں نے شام میں جہاد کے نام پر ایسی گھنائونی کارروائیاں کی کہ عام نوعیت کی بغاوت نے اس وقت فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرلیا
تب اس مرحلہ پر ایران بشار الاسد کی مدد کے لئے آیا۔ اس مدد کی فوری دو وجوہات تھیں اولاً 9 برسوں پر پھیلی عراق ایران جنگ میں مرحوم حافظ الاسد کا شام کو غیرجانبدار رکھنا تھا حالانکہ اس وقت (عراق ایران جنگ) کویت اور سعودی عرب نے عراق کی دل کھول کر مدد کی یہاں تک کہ امریکہ سمیت بین الاقوامی مارکیٹ سے عراق کے لئے 9 ارب ڈالر سے زائد رقم کا اسلحہ خریدا گیا۔
عراق ایران جنگ یاد رہے ایرانی انقلاب کے بعد شروع ہوئی تھی۔ ثانیاً اس جنگ میں شام نے عرب قوم پرستی کی بنیاد پر شرکت سے دوٹوک انداز میں ا نکار کردیا۔ شام کے اس وقت کے صدر حافظ الاسد کا موقف تھا ’’عرب نیشنل ازم بنیادی طور پر صہیونیت کے توسیع پسندانہ عزائم کے مقابلہ کے لئے تھا نا کہ اسلامی ممالک کی آپسی جنگ جسے اب عرب و عجم کی جنگ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے”۔
حافظ الاسد کی وفات کےبعد ان کے صاحبزادے بشارالاسد اقتدار میں آئے وہ 24 برس شام کے صدر رہے اور اتوار 8 دسمبر کی صبح ان کا اقتدار ختم ہوگیا۔
شام اب امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب، ترکیہ اور متحدہ عرب امارات کی پشت بانی سے قائم اور فاتح ” ہئیت التحریر الشام ” کے قبضے میں ہے۔ اسرائیل امریکہ اور عربوں کے شکر گزار ہئیت التحریر کے سربراہ ابو محمد الجولانی کہہ چکے کہ "ہمارے اصل دشمن حزب اللہ اور ایران ہیں” ۔ اب سوال یہ ہے کہ ہئیت التحریرالشام کے سربراہ کے اس بیان سے وہ عرب ممالک کے خود کو فاصلے پر یا الگ رکھ پائیں گے جو اس تنظیم کو بنانے وسائل فراہم کرنے اور فتوحات کا راستہ ہموار کرنے میں معاون رہے؟
یہی سوال تو ترکیہ کے حوالے سے بھی ہوگا کیونکہ ہئیت التحریر الشام کے جنگجو جدید گاڑیوں، اسلحے اور عددی قوت کے ساتھ ترکیہ کے راستے شام میں داخل ہوئے تھے۔
ثانیاً ابھی یہ واضح نہیں کہ ہئیت التحریر شام میں صرف شامی باغی شامل ہیں یا دوسری عرب ریاستوں کے باغی بھی البتہ یہ حقیقت ہے کہ اس تنظیم کے سربراہ محمد الجولانی سعودی عرب میں پیدا ہوئے پہلے وہ القاعدہ کےسرگرم رکن رہے بعدازاں سخت گیر سلفی عقائد والی دولت اسلامیہ عراق والشام میں شامل ہوگئے۔
شام میں داعش کی شکست کے بعد و اسرائیل اور ترکیہ میں مقیم رہے شام میں ہوئی حالیہ بغاوت کا آغاز اس کا ساتھیوں کے ایک لشکر کی صورت میں ترکی سے شام میں داخلے پر ہوا۔
اسرائیلی وزیراعظم نے ہئیت التحریرالشام کی کامیابی کو اسرائیل کی کامیابی قرار دیتے ہوئے جن خیالات کا اظہار کیا یا ہئیت التحریر کی کامیاب بغاوت کے فوراً بعد اسرائیلی فوجی دستوں نے شام میں داخل ہوکر ایک بڑے اور تین چھوٹے قصبوں پر قبضہ کیا اس میں سمجھنے والوں کے لئے خاصی نشانیاں موجود ہیں کہ اس بغاوت کا اصل بینفشری کون ہے ماسوائے اسرائیل کے۔
ثالثاً یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ حزب اللہ اور دوسری غیرمقامی بشار حامی ملیشیائوں کی عدم موجودگی روس، چین اور ایران کا فقط بیانات پر اکتفا کرنا بھی اس بغاوت کی کامیابی کا ذریعہ بنا۔ رابعً شامی فوج نے ابتداً تو مزاحمت کا فرض ادا کیا لیکن جونہی باغی حلب کے بعد حمص پر قابض ہوئے شامی فوجیوں نے دوڑیں لگادیں۔ دو ہزار کے لگ بھگ افسروں اور سپاہیوں نے عراق میں پناہ لے لی۔
اس رائے کو یکسر نظرانداز کرنا از بس مشکل ہے کہ ہئیت التحریرالشام کی فتوحات اور قبضے کو افغانستان میں قندھار سے کابل تک افغان طالبان کی فتوحات کے ’’رنگ‘‘ سے الگ کرکے دیکھنے کی بجائے معاملات کو زمینی حقائق کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اس طور کیا یہ سوال درست نہ ہوگا کہ افغانستان میں طالبان کی فتح اور قبضے کو دوحا معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے امریکی جس طرح پاکستان پر الزام لگارہے تھے کیا اسی طرح کے روسی و ایرانی الزامات شام کے معاملے میں درست ہوں گے ؟
ہماری رائے میں بنیادی فرق یہ ہے کہ امریکی پاکستان کا نام لیتے تھے لیکن روسی اور ایرانی ترکیہ کا نام نہیں لے رہے۔
ہئیت التحریر کے مسلح جنگجوئوں نے دمشق پر قبضے کےبعد عراق کا سفارتخانہ عارضی طور پر بند کروادیا۔ لبنانی اور ایرانی سفارتخانوں پر مسلح افراد نے حملے کئے اسی دوران اسرائیلی فضائیہ نے دمشق کے نواح میں قائم سائنسی تحقیق کے ایک مرکز پر اتوار کی شام بمباری بھی کی۔
اسرائیلی دعویدار ہیں کہ ان کا ہدف کیمیائی ہتھیار بنانے والی ایک فیکٹری تھی۔
ہماری دانست میں اب اس سوال کا پوچھا جانا اہمیت نہیں رکھتا کہ ہئیت التحریرالشام کے جنگجوئوں کے پاس امریکہ اور اسرائیلی ساختہ اسلحہ کیوں ہے اورترکیہ نے کیا ہئیت التحریر الشام کی صرف اس لئے پشت پناہی کی کہ وہ شام کی ترکیہ سے ملحقہ سرحد کے علاقوں میں موجود کرد مسلمانوں کے خلاف ہئیت التحریر الشام کو ایک ا تحادی کے طور پر استعمال کرنے کا خواہاں ہے؟
ہئیت التحریر نے ابتدائی طور پر بشام رجیم کے وزیراعظم کو ہی عبوری حکومت کے سربراہ کے طور پر کام کرنے کا کہا ہے۔ اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ اسرائیل نے اتوار اور سوموار کے دو دنوں میں جن شامی علاقوں پر قبضہ کیا ہے وہ مستقبل میں ان سے دستبردار ہوگا یا توسیع پسندانہ عزائم کو عملی شکل دیتے ہوئے ان علاقوں کو باضابطہ طور پر اپنا حصہ قرار دے گا؟
سوالات اور بھی ہیں ان کے جوابات اور حالیہ منظرنامے سے پردہ اٹھانے کے منتظر لوگوں کو یہ حقیقت نہیں بھولتی چاہیے کہ ہر بغاوت کے ردعمل میں ایک نئی بغاوت ضرور ہوتی ہے۔
شام میں نئی بغاوت کا دارومدار ہئیت التحریر کی داخلی و خارجی پالیسیاں سامنے آنے پر ہے۔ (جاری ہے)