پاکستان میں اینٹی ریپ کرائسس سیل بنیادی طور پر ہیں کیا اور یہ کیسے کام کر رہے ہیں؟
پاکستان کے صوبہ پنجاب کہ مختلف شہروں کہ ہسپتالوں میں اینٹی ریپ کرائسس سیل بنائے جا رہے ہیں جو کہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این وومن کے تعاون سے بن رہے ہیں۔
بدھ کو صوبائی دارالحکومت لاہور کے سروسز ہسپتال میں بننے والے اینٹی ریپ کرائسس سیل کا افتتاع کیا گیا جس میں یو این وومن پاکستان کی کنٹری ہیڈ اور امریکی کونسل جنرل نے بھی شرکت کی۔
یہ اینٹی ریپ کرائسس سیل بنیادی طور پر ہیں کیا اور یہ کیسے کام کر رہے ہیں؟ اس کو سمجھنے کے لیے اینٹی ریپ انویسٹیگیشن ایکٹ 2021 کو سمجھنا ضروری ہے ملک بھر میں نافذ اس قانون کے تحت ریپ کا شکار ہونے والے افراد خاص طور پر خواتین اور بچوں کے لیے تمام صوبوں میں اینٹی ریپ کرائسس سیلز بڑے ہسپتالوں میں بنائے جانا تھے۔
یو این وومن پنجاب کی فوکل پرسن سدرہ ہمایوں نے بتایا کہ ’اس ایکٹ کے تحت جو رولز اف بزنس بنائے گئے تھے اس میں ایک تو اینٹی ریپ انویسٹیگیشن کیسے ہونی ہے، اس کا تعین کیا گیا اسی طرح اس کیس کا ٹرائل کیسا ہونا ہے اس کا تعین کیا گیا۔ اسی طرح سے ہسپتالوں میں اینٹی ریپ کرائسس سیل کیسے بنیں گے یہ بھی طے کر دیا گیا اور آخر میں ایسے افراد کا ڈیٹا بیس تیار کرنا جو انجوائے میں ملوث ہیں۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ یو این وومن اور آئی این ایل، جو کہ ڈونر ہیں، کی مدد سے پنجاب میں اینٹی ریپ کرائسس سیلز بنانے کا عمل جاری ہے پہلے یہ سیل نشتر ہسپتال ملتان میں بنایا گیا اور اب لاہور میں سروسز اور میاں منشی ہسپتال میں بنائے گئے ہیں۔‘
اینٹی ریپ کرائسس سیل میں نیا کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بین الاقوامی معیار کے مطابق ایک پروٹوکول ہے کوئی بھی ریپ سروائیور جب ہسپتال میں آئے تو اس کو انتہائی تربیت یافتہ سٹاف ریسیو کرے اور جو ہم نے دیکھا ہے کہ ایسے مقدمات میں ملزمان قانونی نقائص کی وجہ سے بچ جاتے ہیں۔ اس میں شواہد کا ضائع ہونا سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ اس لیے ان کرائسز سیل کے اندر اینٹی ریپ سالٹ کٹ بنائی گئی ہے جو دنیا بھر میں عالمی معیار کے عین مطابق ہے تاکہ کسی قسم کا کوئی شواہد ضائع نہ ہوں۔‘
پنجاب کے ہسپتالوں میں بننے والے اینٹی ریپ کرائسس سیلز میں ایک فرنٹ ڈیسک ہے جس میں کوئی بھی ریپ سروائیور سب سے پہلے آ کر جب اپنا تعارف کرائے گا تو اسی وقت ایک تربیت یافتہ عملہ ان کو وہاں سے مختص کمرے میں لے جائے گا، جہاں پر ایک تربیت یافتہ عملہ جن کو پنجاب فرینزک لیب سے تربیت دی گئی ہے۔
وہ تمام شواہد کو عالمی معیار کے مطابق اکٹھا کرے گا۔ اینٹی ریپ اسالٹ کٹ، جس میں وہ تمام چیزیں رکھی گئی ہیں، کے نمونے کیسے لینے ہیں کن کن اوزاروں سے نمونے لینے ہیں اور نمونے لینے کے بعد ان کو ہوا کے ذریعے خشک کیسے کرنا ہے تاکہ فوری طور پہ سیل بند کرنے سے اس ان میں فنگس نہ لگ جائے اور وہ شوائد ضائع نہ ہو جائیں۔
یہ تمام تر پروٹوکول کے بعد اس کرائسس سیل کے ساتھ ایک پلے گراؤنڈ بھی ہے کہ اگر کوئی ایسی خاتون وہاں آتی ہے جس کے ساتھ اپنا چھوٹا بچہ ہو تو وہ بچے وہاں پر معائنے کے دوران کھیل سکیں۔ اسی طرح سے اگر کوئی بچہ چھوٹی عمر کا زیادتی کا شکار ہو کر ائے تو اس سے پہلے اس کو اس کا ڈرامہ دور کرنے کے لیے اس کو کھیلنے کودنے کے لیے یا ذہنی طور پہ انگیج کرنے کے لیے کوئی جگہ موجود ہو۔
پنجاب کے وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق کا کہنا ہے کہ ’اقوام متحدہ کے تعاون کے ہم مشکور ہیں اور کل جب ہمیں یہ ساری بریفنگ دی گئی تو اب ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ سارے پروٹوکول اور یہ سارے کرائسس سیل اس طرح کے پنجاب حکومت اپنے پیسوں سے دیگر بڑے ہسپتالوں میں بھی بنائے گی اور اس کے لیے ہم نے باقاعدہ میٹنگز شروع کر دی ہیں، اور اس کے لیے ہم فوکل پرسن بھی بنا رہے ہیں میرا خیال ہے یہ سب سے ضروری کام ہے جو ہمیں فوری طور پہ کرنا چاہیے۔‘
ابتدائی طور پر لاہور میں تین ہسپتال سروسز، میاں منشی اور میو ہسپتال میں اینٹی ریپ کرائسس سیل بنانے کی منظوری دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب کے دیگر 36 اضلاع میں بھی اس کے بعد یہ اینٹی ریپ کرائسس سیل بنائے جائیں گے۔
خواجہ سلمان رفیق کے مطابق ’اگلے چھ مہینے میں ہماری کوشش ہے کہ تمام ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں یہ سیل کام کر رہے ہوں۔‘