پیر مشتاق رضویکالمز

پاکستان کے مہاتما کی سول نافرمانی یا بغاوت ؟؟….. پیر مشتاق رضوی

9 مئی اور 26 نومبر واقعات کی عدالتی تحقیقات نہ کرائی گئی تو 14 دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک چلائی جائے گی، جس کے پہلے مرحلے میں بیرون ملک پاکستانیوں سے غیر ملکی ترسیلاتِ زر نہ بھیجنے کا کہا جائے گا۔

بانئی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی جانب سے ایک بار پھر سے 14 دسمبر کے بعد سول نافرمانی تحریک چلانے کی دھمکی دیدی گئی ہے۔
اڈیالہ جیل سے عمران خان نے اپنے ایک پیغام میں کہا کہ
9 مئی اور 26 نومبر واقعات کی عدالتی تحقیقات نہ کرائی گئی تو 14 دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک چلائی جائے گی، جس کے پہلے مرحلے میں بیرون ملک پاکستانیوں سے غیر ملکی ترسیلاتِ زر نہ بھیجنے کا کہا جائے گا۔
حکمرانوں کے نزدیک عمران خان کی طرف سے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان ریاست سے بغاوت کے مترادف ہے کیونکہ پی ٹی ائی کی طرف سے تسلسل کے ساتھ سیکیورٹی فورسز اور ریاستی اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر انتہائی نفرت آمیز پروپگنڈا کیا جاتا رہا ہے تاریخ شاہد ہے کہ "ادھرتم اور ادھر ہم” کے بعد "خان نہیں تو پاکستان نہیں” انتہائی خطرناک نعرہ ہےتحریک انصاف کے کارکنان کا یہ نعرہ ریاست پاکستان کی نفی کرتا ہے عمران خان کے جنونی پیروکار سسٹم کو برا بھلا کہنے کی بجائے ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف دشنام ترازی کرتے ہیں اس سلسلے فیک نیوز پھیلانا عام ہو چکا ہے اور پاکستان کی سیاست میں سیاسی مخالفین کی ٹرولنگ اور گالی گلوچ کا کلچر شروع کیا گیا جوکہ ایک لمحۀ فکریہ ہے حالانکہ سول نافرمانی کی ابتدا تحریک انصاف کی پارٹی کے اندر قیادت کی نافرمانی بھی شروع ہو چکی ہے اور سول نافرمانی کے بارے پارٹی قیادت شدید تحفظات کا شکار ہے
کہا جاتا ہے کہ سول نافرمانی احتجاج کا ایک سیاسی طریقہ ہے جس کے ذریعے حکومت سے اختلاف رکھنے والے لوگ حکومت کو ہر قسم کو ٹیکس دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ایسی مصنوعات اور ایسی خدمات کے استعمال سے گریز کرتے ہیں جس سے سرکار کو فائدہ پہنچے۔ سول نافرمانی صرف ٹیکس نہ دینے کا نام نہیں بلکہ حکومتی قوانین کے برعکس کام کرنے کا بھی نام ہے جیسا کہ سرکاری کی جانب سے جہاں اجتماع پر پابندی ہو وہاں احتجاج کرنا، شاہرائیں بند کرنے پر پابندی ہے تو شاہرائیں بند کرنا وغیرہ۔ یہ عمل اگر عوامی دائرہ کار میں وسیع تر ہو جائے تو اس سے حکومت کو مشکلات کا شکار کیا جا سکتا ہے اس سلسلے عمران خان کی سول نافرمانی کی تحریک کی پہلے مرحلہ میں تمام تر دارو مدار بیرون ممالک سے ترسیلات زر میں رکاؤٹ ڈالنے پر ہو گاتاکہ زر مبادلہ میں کمی لا کرحکومت پاکستان معاشی بحران کا شکار ہو سکے اور تحریک انصاف اپنے مطالبات کی منظوری کے لئے حکومت پر دباؤ بڑھایا جاسکے واضح رہے کہ حوالہ ھنڈی جیسے دیگر ذرائع سے ترسیلات زر غیر قانونی ہے اس سے قبل تحریک انصاف کی طرف سے متعدد بار ملک کو معاشی بحران سے دوچار کرنے کے لئے مختلف حربے اختیار کئے 2014ء میں 126 دن کے دھرنے کے دوران بھی عمران خان سول نافرمانی کا اعلان کر چکے اسی دھرنے کے دوران عمران خان نے بیرونِ ملک پاکستانیوں سے کہا کہ وہ بینکوں کی بجائے حوالہ ہنڈی کے ذریعے رقوم پاکستان بھیجیں تاکہ حکومت کو فارن ایکسچینج نہ ملےاور کنٹینیر پر کھڑے ہو کر انہوں نے بجلی کے بلوں کو آگ لگائی تھی۔ تاہم اس کے کچھ ہی دنوں بعد میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے بجلی کا بل جمع کروا دیا اور بجلی کے بل ادا کر کے سول نافرمانی کے اپنے اعلان کا یوٹرن لے لیا تھا جس سے ان کی سول نافرمانی تحریک کامیاب نہیں ہو سکی تھی
تاریخ پاکستان میں سول نافرمانی کوئی انوکھا واقعہ نہیں اور اس طرح کی تحاریک چلانے کے اعلانات ہوتے رہے لیکن ماسوائے چند ایک کے زیادہ تر ایسی تحاریک بے اثر رہیں۔ قیام پاکستان کے ایک عشرے بعد 1958ء سے 1969ء کے دوران وکلاء، طلباء اور سٹوڈنٹس یونینز کی طرف سے جنرل ایوب خان کی فوجی حکومت کےخلاف مختلف مواقع پر سول نافرمانی تحریک کی کال دی گئی۔1970ء کے انتخابی نتائج کو قبول کرنے کے لیے اس وقت مشرقی پاکستان کے لیڈر شیخ مجیب الرحمٰن نے سول نافرمانی کی کال دی تھی۔
70ءکی دہائی میں پاکستان نیشنل الائنس نے ذوالفقار علی بھٹوحکومت کے خلاف احتجاج کے لیے مختلف مواقع پر سول نافرمانی کی کالز بھی دیں۔1981ء سے 1986ء کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت میں مختلف سیاسی جماعتوں کے اتحاد برائے بحالیٔ جمہوریت کی طرف سے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کے اعلانات ہوتے رہے۔تاریخ پاکستان میں کوئی انوکھا واقعہ نہیں اور اس طرح کی تحاریک چلانے کے اعلانات ہوتے رہے لیکن ماسوائے چند ایک کے زیادہ تر ایسی تحاریک بے اثر رہیں۔لکین تحریک انصاف کی سول نافرمانی کی کال موجودہ حالات میں سنگین ترین اقدام ہو سکتا ہے موجودہ حالات کے تناظر میں سول نافرمانی کا انجام کے بارے پیشگین کی جا سکتی ہے تحریک انصاف سول نافرمانی کی تحریک سے سب سے پہلے بڑا نقصان خود کے پی کے حکومت کو ہوگا سرکاری محصولات میں کمی سے صوبہ مزید مالی بحران کا شکار ہوگا اور صوبائی حکومت کی شدید ترین بد انتظامی کی بناء پر امین علی گنڈاپور اپنی حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے کیونکہ گذشتہ عرصہ کے دوران خیبر پختون خواہ میں متعدد بار گورنر راج لگانے کی باتیں کی جاتی رہی ہیں اب جبک یہ سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان کی معشیت بہتری کی طرف گامزن ہے اور قومی معشیت پٹری پر چڑھ چکی ہے سول نافرمانی کی تحریک سے پاکستان میں معشیت کی بحالی کے لئے جاری اقدامات کو سبوتاژ کیا جا سکتا ہے اور معاشی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے حکومت اور اس کے سیاسی گارڈ فادرز ہرگز نہیں چاہیں گے کہ پاکستان کی معشیت ڈی ریل ہو اس لیے وہ سول نافرمانی کی تحریک کے خلاف انتہائی سخت اقدامات کریں گے جس سے پی ٹی ائی کے کارکنان ایک بار پھر سخت مشکلات کا شکار ہو جائیں گے کیونکہ حکومت سمجھتی ہے کہ پاکستان کے خلاف ڈیجیٹل دہشت گردی جا رہی ہے اور سول نافرمانی کی تحریک معاشی دہشت گردی ہوگی جس کا پاکستان قطعی طور پر متحمل نہ ہے عمران خان نے اس سے قبل ائی ایم ایف کو خط لکھا کہ پاکستان کو قرضہ نہ دیا جائے اس سے قبل عمران خان نے اپنے دور حکومت کے اخر میں ائی ایم ایف کے معاہدوں کی خلاف ورزی کی تھی اور جب عمران خان کی حکومت کی برطرفی کے بعد بارہا پاکستان کو ڈیفالٹ قرار دیے جانے کا ہپروپگنڈا کیا جاتا رہا اور سری لنکا سے اس کی مثالیں دی جاتی رہیں اس کے بعد قائم ہونے والی نگران حکومت کا بھی یہ موقف تھا کہ پی ٹی ائی نے قومی معشیت کی تباہی کے لیے سرنگیں بچھائی تھیں اب سول نافرمانی کی تحریک سے ایک دفعہ پھر ائی ایم ایف کے معاہدوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ان حالات کے پیش نظر حکومت وقت پہلے سے زیادہ انتہائی سخت اقدامات کرے گی جبکہ پی ٹی ائی کے قیادت بھی سول نافرمانی کی تحریک کے اعلان پر تحفظات کا شکار ہے کیونکہ پی ٹی ائی کی قیادت اور کارکنان کی ایک بڑی تعداد مقدمات قید و بند اور مبینہ ریاستی جبر وتشدد کا سامنا کر رہی ہے نافرمانی کی تحریک سے پی ٹی ائی کو انتہائی سخت حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے عمران خان کی فائنل کال پر سوائے کے پی کے کے ملک بھر سے کسی بھی صوبے سے پی ٹی ائی عوام کو نکالنے میں ناکام ثابت دکھائی دی تھی یہی پس منظر پی ٹی ائی کی سول نافرمانی کی تحریک پر ایک سوالیہ نشان ہے
کیا فائنل کال کے بعد سول نافرمانی کی تحریک عمران خان کا آخری ٹرمپ کارڈ ثابت ہو گا؟ جس طرح فائنل کال بغیر کسی منصوبہ بندی اور مکمل تیاری کے دی گئ سول نافرمانی کا اعلان بھی بڑی عجلت میں کیا گیا ہے حالانکہ 24نومبر کی فائنل کال کا منطقی انجام ایک درس عبرت ہے پی ٹی آئی کی قیادت منتشرالمزاج نظر آرہی ہے اور پارٹی میں اندرون مشاورت کا فقدان ہے اور پارٹی قیادت پر شدید قسم کی عدم اعتماد کا اظہار ہو رہاہے پارٹی فیصلے جمہور کی بجائے جیل سے ایک فرد واحد کی طرف سے آمرانہ انداز میں صادر کئے جارہے ہیں جس کا خمیازہ پارٹی قیادت اور کارکنان کومبینہ ریاستی جبر وتشدد ،قید وبند اور سنگین مقدمات کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے جبکہ تحریک انصاف پر پابندی کی باتیں بھی کی جاتی رہی ہیں
سول نافرمانی کی تحریک حکومت وقت کے لئے پے در پے آزمائش بن سکتی ہے لیکن پی ٹی آئی کے کارکنان کے لئے ایک اور سخت ترین آزمائش ہوگی جس کےلئے شاید پارٹی تیار نہ ہو تحریک انصاف پر الزام ہے کہ وہ ایک تسلسل کے ساتھ محاذ آرائی مبینہ خوں ریزی اور تشدد کی سیاست کررہی ہے اور اس کے کارکنان سیاسی ایجیٹیشن میں مسلسل انگیج کئے جارہے ہیں جو بظاہر ان کی برداشت کی حد سے کہیں زیادہ دیکھائی دیتی ہے جس کے ردعمل میں حکومت اور ریاستی ادارے پی ٹی آئی کی محاذ آرائی اور انتشار پھیلانے کے سدباب کے لئے راست اقدام کررہی ہے دو اطرفہ انتہائی اقدامات جمہوری روایات کے سراسر منافی ہے
وزیر اعظم شہباز شریف کے مطابق سول نافرمانی کی کال ملک دشمنی ہے، اسلام آباد پر چڑھائی کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے: وزیراعظم، اسلام آباد پر چڑھائی کرکے ملک کے خلاف سازش کی گئی تھی، حکومت کو ہدایت کردی ہے کہ اس سازش کے ذمہ داروں کو ثبوتوں کے ساتھ کیفر کردار تک پہنچایا جائے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ سول نافرمانی کی تحریک کسی صورت کامیاب نہ ہو گی جبکہ تحریک انصاف کے راہنما شیر افضل مروت واضح اعلان کیا ہے کہ سول نافرمانی کا کال حتمی ہے اور 15 دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کر دیا جائے گا

روشنی کے بھی کچھ آداب ہواکرتے ہیں
رات اندھیری ہو تو کیا آگ لگا دو گے میاں

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button