پاکستان میں 2024 میں انسانی حقوق کی صورتحال کیسی رہی؟
اسرائیل نے فلسطین سمیت مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک پر جنگ مسلط کر رکھی ہے لیکن کوئی اس کو روک نہیں پا رہا
وولفس برگ.جرمنی(رپورٹ وائس آف جرمنی): دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پوری زور و شور سے جاری ہے۔ عالمی سطح پر دیکھیں تو بھارت کشمیریوں،وہاں بسنے والے مسلمانوں اور اقلیتوں پر ظلم ڈھا رہا ہے،اسرائیل نے فلسطین سمیت مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک پر جنگ مسلط کر رکھی ہے لیکن کوئی اس کو روک نہیں پا رہا۔ بڑے بڑے ممالک مل کر بھی وہاں انسانی حقوق کا تحفظ نہیں کر پا رہے۔بچپن میں والدین کی طرف سے بچے کے دل و ذہن میں راسخ کیے گئے ندامت کے احساسات بڑے ہونے پر ختم نہیں ہوتے بلکہ مزید پختہ ہوئے ہوتے ہیں.
پاکستان میں بھی صورتحال زیادہ حوصلہ افزاء نہیں ہے۔یہ اور بات کہ پاکستان میں اِس وقت بہت سے لوگ بنیادی حقوق سے محروم ہیں، خواتین آج بھی اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کرتی نظر آتی ہیں، قانون کی عملداری نہ ہونے کی وجہ سے شہریوں کے حقوق بھی پامال ہوتے ہیں،سزا و جزا کا خاص نظام نہیں ہے، کسی کو تعلیم و صحت کی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں، کسی کے پاس پینے کا صاف پانی نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی فراہمی میں ورلڈ جسٹس پراجیکٹ رول آف لاء انڈیکس کے مطابق 140 ممالک میں سے پاکستان 125ویں نمبر پر ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی حال ہی میں حکومت ِ پاکستان کو انسانی حقوق سے متصادم قانون سازی نہ کرنے کی تلقین کر چکی ہے۔پاکستان میں لوگوں کو بہت سے گمبھیر مسائل کا سامنا ہے جس میں غیر قانونی حراست، سیاسی قیدیوں، آزادیئے اظہار پر پابندی کے علاوہ میڈیا کی آزادی، صحافیوں پر تشدد اور بلاجواز گرفتاریاں، جبری گمشدگیاں، سنسر شپ کے مسائل، اقلیتوں کے خلاف واقعات اور انٹرنیٹ کی آزادی پر سنگین پابندیاں شامل ہیں۔ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی ۱۹۷۴ء میں کی گئی دوسری آئینی ترمیم پر نصف صدی پوری ہونے پر جماعت احمدیہ کے خلاف جلسے،جلوس اور ریلیوں میں انتہائی تیزی دیکھنے میں آئی۔ ان واقعات نے جماعت احمدیہ پر ہونے والے ظلم وستم کو نمایاں کر دیا اور ساتھ ہی اس بات کو بھی واضح کر دیا کہ کیسے مذہبی جماعتوں کا اثر ریاست پر بڑھتا جا رہا ہے اور کیسے ایک جماعت کو معاشرے سے مزید کاٹا جا رہا ہے۔
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں، سٹریٹ کرائم 11 فیصد بڑھ گئے جبکہ ڈکیتیوں میں مزاحمت پر 134 شہری جان گنوا بیٹھے،جبری مذہب کی تبدیلی کے 136 واقعات رپورٹ ہوئے۔رپورٹ کے مطابق 226 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، 700 خواتین کو اغواء کیا گیا، 631 بدسلوکی کا نشانہ بنیں،277 خواتین کے ساتھ اجتماعی بد سلوکی کی گئی، خواجہ سراؤں پر غیرت کے نام پر تشدد کے نو جبکہ جنسی بدسلوکی کے 11 واقعات ریکارڈ ہوئے، بچوں سے بدسلوکی کے چار ہزار سے زائد واقعات ریکارڈ پر لائے گئے، پولیس حراست میں 33 افراد جاں بحق ہوئے، 13 افراد کو زیر حراست تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ملک کی جیلوں میں گنجائش سے 45 فیصد زائد قیدی رکھے گئے۔ جاری کردہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ عدالتوں میں 22 لاکھ 60 ہزار سے زائد مقدمات زیر التواء ہیں اور اِن میں اوسطً 18 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ ایچ آر سی پی کا رپورٹ میں یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں شہری اور معاشی حقوق کو شدید چیلنجوں کا سامنا ہے، خواتین، اقلیتوں، بزرگوں، مہاجرین اور بے گھر افراد کے حقوق کا تحفظ کرنا ہو گا۔ دوسری جانب سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی حالیہ رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر 9133 افراد کے لاپتہ ہونے کی شکایات ملیں جن میں سے 5574 افراد کا سراغ لگا لیا گیا، لاپتہ افراد کمیشن کی کوششوں سے 3743 افراد گھروں کو پہنچ گئے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ لاپتہ قرار دیے گئے 974 افراد حراستی مراکز اور 616 جیلوں میں ہیں،مجموعی طور پر 241 لاپتہ افراد کی لاشیں ملیں جبکہ مجموعی طور پر 6926 کیس نبٹائے جا چکے ہیں، عدالتوں میں 30 نومبر تک لاپتہ افراد کے2207 مقدمات زیر التواء تھے جن میں سے نومبر میں 98 نئے کیس موصول ہوئے جبکہ 101کیس نبٹائے گئے تھے۔
اقوامِ متحدہ کے جاری کردہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس 2024ء کے مطابق پاکستان انسانی ترقی کے معیار کے حوالے سے 191 ممالک کی فہرست میں 0.544 پوائنٹس کے ساتھ 161ویں نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں حالیہ انڈیکس میں قدرے بہتری آئی ہے، گزشتہ برس پاکستان 0.540 پوائنٹس کے ساتھ 164ویں نمبر پر تھا لیکن اِس بہتری کے باوجود عوام کو بے شمار مشکلات کا سامنا ہے۔عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں محض ایک سال کے دوران غربت کی شرح 34.2 فیصد سے بڑھ کر 39.3 فیصد تک پہنچ چکی ہے یعنی ملک میں قریباً نو کروڑ 50لاکھ افراد کو اپنی بنیادی ضروریاتِ زندگی پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 8.5 فیصد تک پہنچ چکی ہے جبکہ عوام صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔ ملک میں ہسپتالوں کی تعداد آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے اور جو ہسپتال موجود ہیں وہاں بھی علاج معالجے کی معیاری سہولتیں میسر نہیں جبکہ وزارتِ تعلیم کے مطابق ملک میں دو کروڑ 62 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔اِن حالات میں موجودہ حکومت کو عوام کا معیارِ زندگی بہتر بنانے کے لئے خاصا کام کرنے کی ضرورت ہے، عوام کی قوتِ خرید بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اُنہیں بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ دنیا بھر میں ترقی کو انسانی آزادی سے منسلک کیا جاتا ہے،غیر ضروری پابندیاں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں حکومتوں کو فائدے کے بجائے اُلٹا نقصان ہی پہنچاتی ہیں،یاد رہے کہ قانون پر عملداری کے حوالے سے موجود کمزوریوں کا ازالہ حقوق سلب کر لینے سے ممکن نہیں ہے، انسانی حقوق کا احترام اور تحفظ ہر کسی پر ہر صورت لازم ہے۔