اہم خبریںپاکستان

پاکستان میں سال دو ہزار چوبیس صحافیوں کے لیے گزشتہ ایک دہائی کا ’سب سے مشکل‘ سال رہا

پاکستان میں میڈیا اور اس سے وابستہ پیشہ ور افراد، بشمول صحافیوں اور دیگر میڈیا پروفیشنلز (او ایم پیز) کے خلاف حملوں اور خلاف ورزیوں کے کم از کم ستاون واقعات پیش آئے

(رپورٹ وائس آف جرمنی):پاکستان میں سال دو ہزار چوبیس صحافیوں کے لیے گزشتہ ایک دہائی کا ’سب سے مشکل‘ سال رہا۔ یہ سال پاکستانی صحافیوں کے لیے جبر، دباؤ اور معاشی مشکلات سے عبارت تھا جبکہ ملک میں ’غیر پیشہ ور صحافیوں‘ کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے۔نومبر دو ہزار تیئس سے اگست دو ہزار چوبیس کے دوران پاکستان میں صحافیوں اور دیگر میڈیا پروفیشنلز (او ایم پیز) کے خلاف حملوں اور خلاف ورزیوں کے کم از کم ستاون واقعات پیش آئے. اس سال مین اسٹریم میڈیا کو براہ راست اور بالواسطہ طور پر ایڈوائزری، فون کالز جبکہ ”گاجر اور چھڑی‘‘ کے ذریعے کنٹرول کیا جا جاتا رہا۔ حکومت کے حامی میڈیا اداروں کو اشتہارات سے نوازا گیا جب کہ تنقیدی آوازوں کو شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ڈیجیٹل اسپیس کم ہو گئی ہے، انٹرنیٹ سست ہو چکا ہے، وی پی این پر گزارا کرنا پڑ رہا ہے اور آپ کی بہت سی آزادیاں معدوم ہو گئی ہیں،میڈیا پر مزید پابندیاں لگائی جا رہی ہیں اور معلومات تک رسائی اتنا ہی بڑا مسئلہ رہی ہے، جتنا ماضی میں تھا۔ شاید پوری دنیا میں یہ رجحان بڑھ رہا ہے میڈیا سینسر شپ اور خود ساختہ سینسر شپ نے اس سال پورے ملک میں میڈیا کو جکڑ کر رکھا ہے۔صحافیوں کو سیاسی پولرائزیشن کی رپورٹنگ میں شدید رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا اور میڈیا اداروں کو ان موضوعات کی کوریج سے باز رکھا گیا۔اس کے نتیجے میں ایک خلا پیدا ہوا، جسے اکثر غیر پیشہ ور صحافیوں نے پُر کیا اور عوام تک پہنچنے والی معلومات کے معیار میں مزید کمی واقع ہوئی،جو صحافی سیاسی طور پر حساس موضوعات پر رپورٹنگ کرنے کی ہمت کرتے تھے، انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑا، جن میں قانونی دباؤ اور تشدد شامل تھے۔
میڈیا کے تجزیہ کاروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے حکومت کی جانب سے صحافیوں اور میڈیا تنظیموں پر بڑھتے ہوئے دباؤ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تجویز پیش کی ہےکہ حکومت صحافیوں اور عوام کے ساتھ بات چیت کا راستہ اختیار کرے، کیونکہ ریاست مخالف عناصر کے خلاف جنگ میں کامیابی کا یہی واحد طریقہ ہے۔
پاکستان ایک ایسا ملک بن گیا ہے، جہاں اشرافیہ کی حکمرانی ہے اور عام شہری مقبوضہ سرزمین کے باشندے بن گئے ہیں، جہاں سیاسی اختلافِ رائے، میڈیا اور انسانی حقوق کے کارکنان کو بڑے پیمانے پر جبر اور دباؤ کا سامنا ہے۔
نومبر دو ہزار تیئس سے اگست دو ہزار چوبیس کے دوران پاکستان میں صحافیوں اور دیگر میڈیا پروفیشنلز (او ایم پیز) کے خلاف حملوں اور خلاف ورزیوں کے کم از کم ستاون واقعات پیش آئے.میڈیا، خاص طور پر نجی ادارے، آزادانہ موقف اختیار کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔جو لوگ آزادانہ رپورٹنگ کی کوشش کرتے ہیں، انہیں نوٹسز اور شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔باری نے انسانی حقوق کو دبانے اور ریاست کے جبر کو انتہائی تشویش ناک قرار دیتے ہوئے اسے ملک کے جمہوری اصولوں کے لیے ایک بڑا چیلنج قرار دیا۔
یہ سال آزاد اور پیشہ ور صحافیوں کے لیے ناقابل تصور حد تک مشکل تھا۔ آزادی صحافت کے مخالفین ملک بھر میں استثنیٰ کے ساتھ مضبوط ہوتے رہے لیکن یہ صحافی اتنے بہادر ہیں کہ پھر بھی کھڑا ہو کر پیشہ ورانہ فرائض انجام دیتے ہیں، ”مثال کے طور پر ڈان اخبار کی تحقیقاتی کہانیوں کو بہترین تحقیقاتی کہانیوں کے طور پر شارٹ لسٹ کیا گیا، جو اس بات کی امید دلاتا ہے کہ میڈیا پر کثیر الجہتی حملوں کے باوجود سب کچھ ختم نہیں ہوا۔‘‘
پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرتے ہوئے دو ہزار اکیس میں سندھ اور وفاق کی سطح پر صحافیوں اور میڈیا کے دیگر پیشہ ور افراد کے تحفظ کے لیے الگ الگ قوانین تشکیل دیے گئے۔ تاہم ان قوانین کے عملی نفاذ میں تاخیر اور غیر مؤثر پیش رفت نے صحافیوں کے تحفظ کے مسائل کو مزید پیچیدہ کر دیا۔
فریڈم نیٹ ورک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق نومبر دو ہزار تیئس سے اگست دو ہزار چوبیس کے دوران پاکستان میں میڈیا اور اس سے وابستہ پیشہ ور افراد، بشمول صحافیوں اور دیگر میڈیا پروفیشنلز (او ایم پیز) کے خلاف حملوں اور خلاف ورزیوں کے کم از کم ستاون واقعات پیش آئے۔جبکہ پاکستان میں جنوری دو ہزار سے اگست دو ہزار چوبیس کے درمیان ڈیوٹی کے دوران ہلاک ہونے والے صحافیوں اور میڈیا کے دیگر پیشہ ور افراد کی مجموعی تعداد، جیسا کہ فریڈم نیٹ ورک نے تصدیق کی ہے، ایک سو اکیاون ہے۔اس رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا اور سندھ صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک علاقے ثابت ہوئے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان ہلاکتوں میں ایک سو اڑتالیس مرد صحافی اور تین خواتین میڈیا پیشہ ور شامل ہیں۔ ان میں ایک سو پچیس صحافی اور چھببیس دیگر میڈیا کارکن شامل تھے، جن میں سب سے زیادہ ایک سو دو رپورٹرز اور تیرہ کیمرہ مین نشانہ بنے۔
خیبر پختونخوا میں اکتالیس صحافیوں اور پانچ دیگر میڈیا کارکنوں کی ہلاکت ہوئی، جبکہ سندھ میں تینتیس صحافیوں اور نو دیگر میڈیا پیشہ ور افراد کو قتل کیا گیا۔ بلوچستان میں بائیس صحافیوں اور نو دیگر میڈیا پیشہ ور افراد کی ہلاکتیں ہوئیں۔ پنجاب میں ستائیس صحافیوں اور اسلام آباد میں چار میڈیا کارکنوں کی ہلاکت ہوئی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button