سوئس عدالت کا بشار الاسد کے چچا کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ بند کرنے پر غور
فروری 1982 میں شام کے مغربی قصبے حماہ میں ہونے والے بدنام زمانہ قتل عام، جس میں 10 سے 40 ہزار کے درمیان لوگ مارے گئے، میں ان کے کردار کی وجہ سے انہیں ’حماہ کا قصائی‘ کا لقب ملا
سوئٹزرلینڈ کے مقامی اخبارات نے اتوار کو کہا ہے کہ وفاقی فوجداری عدالت معزول شامی صدر بشار الاسد کے چچا پر مبینہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا مقدمہ خارج کرنے پر غور کر رہی ہے۔سوئس استغاثہ کے پاس رفعت الاسد کے جرائم کی ایک طویل فہرست ہے جس کے مطابق انہوں نے بطور فوجی افسر ’قتل، تشدد، غیرانسانی سلوک اور غیرقانونی حراستوں‘ کے احکامات دیے تھے۔فروری 1982 میں شام کے مغربی قصبے حماہ میں ہونے والے بدنام زمانہ قتل عام، جس میں 10 سے 40 ہزار کے درمیان لوگ مارے گئے، میں ان کے کردار کی وجہ سے انہیں ’حماہ کا قصائی‘ کا لقب ملا۔
سوئٹزرلینڈ کے مقامی اخبارات کے مطابق 29 نومبر کو عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ان کے بھتیجے کا تختہ الٹنے سے صرف چند دن قبل، وفاقی فوجداری عدالت نے متاثرہ مدعی کو مطلع کیا کہ وہ رفعت الاسد کے خلاف ’کارروائی بند کرنا چاہتی ہے۔‘ٹربیونل نے کہا کہ رفعت الاسد جن کی عمر 87 برس سے زائد ہے، کئی بیماریوں میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے وہ سفر کرنے اور اس کے مقدمے میں حصہ لینے سے قاصر ہیں۔سوئس غیرسرکاری تنظیم ٹرائل انٹرنیشنل کی رپورٹ کے بعد وفاقی پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر نے دسمبر 2013 میں اس فوجداری کارروائی کا آغاز کیا تھا۔
رفعت الاسد سنہ 1984 میں اپنے بھائی اور شام کے اس وقت کے حکمران حافظ الاسد کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے بعد جلاوطن ہو گئے تھے۔اس کے بعد انہوں نے خود کو بشار الاسد کے مخالف کے طور پر پیش کیا، اور پہلے سوئٹزرلینڈ اور بعد میں فرانس کا سفر کیا۔وہ فرانس میں 37 سال جلاوطنی کے بعد شام واپس آ گئے تاکہ منی لانڈرنگ اور شام کے عوامی فنڈز کے غلط استعمال کے الزام میں چار سال قید کی سزا سے بچ سکیں۔