پیر مشتاق رضویکالمز

سقوط ڈھاکہ کے سیاسی محرکات!!…. ۔ پیر مشتاق رضوی

اس تقسیم سے ہندوؤں کی معاشی اجارہ داری ختم ہوئی اور بنگال کے پسماندہ مسلمانوں کو معاشی خوشحالی اور آسودگی نصیب ہوئی جو کہ ہندوؤں کو سخت ناپسند تھی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللّٰہ علیہ کی رحلت اور قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستان میں محلاتی سازشیں شروع ہو گئیں

بنگال کی سر زمین سے نشاۃالثانیہ پاکستان کے قیام کی جدوجہد کا آغاز ہوا تحریک پاکستان میں بنگال کےمسلمانوں نے بنیادی کردار ادا کیا 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ قائم ہوئی جس کے قیام کا نمایاں سبب 1905ء میں تقسیم بنگال پر ہندوؤں کا شدید رد عمل تھا 1906ء میں جب محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا سالانہ اجلاس کے اختتام پر سر آغا خان نے مسلمان قائدین کو چائے کی دعوت دی اس موقع پر انہوں نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک سیاسی پلیٹ فارم بنانے کی تجویز دی اور اس طرح مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا اور سر آغا خان آل انڈیا مسلم لیگ کے پہلے صدر بنے بعد ازاں بنگال کے مسلمان ،ہندو کی دشمنی اور شدید تعصب کو بھول گئے تھے جب ہندو بنیا نے تقسیم بنگال کی شدید مخالفت کی تھی کیونکہ اس تقسیم سے ہندوؤں کی معاشی اجارہ داری ختم ہوئی اور بنگال کے پسماندہ مسلمانوں کو معاشی خوشحالی اور آسودگی نصیب ہوئی جو کہ ہندوؤں کو سخت ناپسند تھی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللّٰہ علیہ کی رحلت اور قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستان میں محلاتی سازشیں شروع ہو گئیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان نے ریشہ دوانیاں شروع کیں کل تک تقسیم بنگال کے دشمن ہندو نے بنگالیوں سے ھمدردی کا لبادہ میں مشرقی پاکستان میں قومیت پرستی کو ہوا دی اور مغربی اور مشرقی پاکستان میں نفرت پیدا کرنے کا کام شروع کیا جب اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا تو لسانی تعصب کو ابھارا گیا اور بنگال میں احتجاج کیا گیا 1956ء اور 1962ء کے آئین کے مطابق” بنگلہ "زبان کو اردو کے ساتھ دوسری قومی زبان قرار دے دیا گیا یہ ایک حقیقت ہے کہ مغربی پاکستان کے آمروں نے مشرقی پاکستان کا استحصال کیا حالانکہ وسائل اور ابادی کے لحاظ سے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان پر برتری حاصل تھی تحریک پاکستان میں بھی بنگال کے مسلمانوں نے لازوال قربانیاں انجام دی مغربی اور مشرقی پاکستان جغرافیائی لحاظ سےدور دراز واقع تھے بنگلہ دیش کی سرحدیں ہندوستان سے جڑی ہوئی ہیں بھارت نے مشرقی پاکستان میں نسلی اور قومیت کے امتیاز کو ہوا دی اور انتہائی شدومد کے ساتھ زہریلا پروپگنڈا شروع کر دیا گیا کہ مغربی پاکستان، مشرقی پاکستان کے وسائل کو ہڑپ کر رہا ہے مشرقی پاکستان کی سب سے اہم پیداوار پٹ سن دنیا بھر میں سب سے زیادہ وہاں پیدا ہوتی جس کا مالی فائدہ مغربی پاکستان اٹھاتا ہے اور بنگالیوں کو ان کے حقوق نہیں دیے جاتے دورآمریت میں پاکستان کی مشرقی اور مغربی حصوں کو کے تشخص کو ختم کر کے "ون یونٹ” قائم کیا جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور بنگالیوں میں احساس محرومی بڑھتا گیا پاکستانیوں کو بنگالی بنانے کی ایک اور اھم وجہ مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ہندو اساتذہ چھائے ہوئے تھے انہوں نے نئی نسل میں تعصب اور قومیت سی لبریز سوچ کو اجاگر کیا اور پاکستانی قوم کی بجائے ایک نئی قومیت پرست بنگالی نسل کو پروان چڑھایا قیام پاکستان سے قبل متحدہ بنگال کے وزیراعلی حسین شہید سہروردی نے برصغیر میں دو آزاد مسلم ریاستوں کی تجویز پیش کی تھی یہی حسین شہید سروردی پاکستان کے قلیل مدت کے لیے وزیراعظم بھی بنے اور جنہیں بعد میں غدار بھی قرار دیا گیااسی طرح 1965ء میں جنرل ایوب کے صدارتی انتخابات میں مشرقی پاکستان کے عوام نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا اور جنرل ایوب کی آمریت کو للکارا تھا مشرقی پاکستان کی آبادی 56 فیصد تھی اور بنگال کے عوام اکثریت کی بنیاد پر نمائندگی کا حق چاہتے تھے جبکہ 1956ء اور 1962ء کے آئین کے مطابق برابری کی بنیاد پر بھی انہوں نے نمائندگی قبول کر لی تھی لیکن ان کو جائز حقوق نہ دیے گئے جس کی وجہ سے بنگالیوں میں مایوسی پھیلی اور اس مایوسی کو شدید تقویت 1970ءکے الیکشن میں ہوئی جب عوامی لیگ نے 300 نشستوں میں سے 160 قومی نشستیں جیت لیں اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اس کی نصف 81 سیٹیں حاصل کی اسی طرح عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کے صوبے سے 300 جنرل نشستوں میں سے 288 نشستیں جیتی اور 1970ء کے الیکشن میں عوامی لیگ ایک اکثریتی پارٹی بن کر ابھری لیکن مغربی پاکستان کی سیاسی قیادت نے عوامی لیگ کی اکثریت کو قبول نہیں کیا آئین اور مروجہ قانون کے تحت عوامی لیگ کو کثرت نمائندگی کی بناء پر حکومت بنانے کاحق ملنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ ہوا جنرل یحیی’ نے شیخ مجیب الرحمان سے مذاکرات کیے جو کہ ناکام ہوئے اور اس کا نتیجہ علیحدگی ہوا ہندوستان نے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی کے درمیان اختلافات اور سیاسی بحران سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور دہشت گرد تنظیم مکتی باہنی قائم کی بھارت نے مشرقی پاکستان میں بھرپور کھلم کھلا مداخلت کی اور دھشتگرد مکتی باہنیوں کے ذریعے پاکستانیوں کا قتل عام کرایا گیا دوسری طرف جھوٹا پروپگنڈا پھیلایا گیا کہ پاکستانی فوج نے ڈھائی لاکھ سے زیادہ بنگالیوں کے قتل عام کیا اور بنگالی عورتوں کی عصمت دری کی جس سے بنگالیوں میں شدید اشتعال پھیلایا گیا اور مغربی پاکستان سے شدید نفرت پیداکی گئی جو آج تک قائم ہے مشرقی پاکستان میں فسادات پھوٹ پڑے اور صورتحال انتہائی خراب ہو گئی جس کو سنبھالنے کے لی جنرل یحیی’ نے وہاں پر ایمرجنسی لگا دی فوج نے صورتحال کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کیے لیکن حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے وہاں پر مکتی باہنی تنظیم نے وسیع پیمانوں پر فسادات پھیلائے 15 مارچ 1971ء کو ذوالفقار علی بھٹو اورشیخ مجیب الرحمان کی ڈھاکہ میں ملاقات ہوئی تاکہ حالات کو پر ا من بنایا جا سکے لیکن یہ مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہو گئے جبکہ شیخ مجیب الرحمن نے اپنے مشہور چھ نکات پیش کیے ان میں سے ایک نکتہ بھی اس وقت علیحدگی پر منتج نہ تھا لیکن پاکستان کی مغربی سیاسی قیادت نے ان چھ نکات کو بھی مسترد کر دیا اور ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے والوں کی ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکیاں دی گئیں "ادھر ھم ادھر تم ” کی متنازعہ ترین سیاسی بیانیہ بھی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد بنا اس دوران مشرقی پاکستان میں حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے جس کی وجہ سے بنگالیوں نے بھارت کی طرف ہجرت کرنا شروع کر دی اور بھارت نے باغی بنگالیوں کی کھلم کھلا مدد کی بھارتی فوج نے باغیوں کو اسلحہ اور ٹریننگ بھی دی جس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے مابین حالات سنگین ہو گئے اور 1971ء میں جنگ چھڑ گئی بھارت نے مشرقی پاکستان میں اپنی فوجی داخل کر دیں اور پاکستان کی فوج کو محصور کر دیاگیا اور اس طرح 16 دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان پاکستان ھم سے علیحدہ ہو گیا اور بنگلہ دیش کے نام سے علیحدہ ملک بن گیا پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا تاریخ نے ایک حیران کن منظر دیکھا جب پاکستان میں 1974ء میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس ہوئی تو اس وقت سابقہ پاکستانی شہری شیخ مجیب الرحمٰن ایک غیر ملکی حکمران بن کر اس کانفرنس میں شریک ہوئے
پاکستان کے آمروں اور اقتدار پسند سیاست دانوں نے بنگالیوں کے آئینی اکثریتی حقوق کو تسلیم نہ کیا اور مشرقی پاکستان کا سیاسی حل تلاش کرنے کی ضرورت تک محسوس نہ کی گئی ریاستی جبر اورطاقت کے بل بوتے پر بنگالیوں کو دبانے کی ہر بار ناکام کوششیں کی گئیں بنگال کے مسلمانوں نے پاکستان قائم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا لیکن حقیقی پاکستانیوں کو دیوار سے لگا دیا گیا اور بنگالیوں کو علیحدگی پر مجبور کر دیا گیا یوں پاکستان کے مشرقی وجود کا کاٹ کر رکھ دیا گیا ستم ظرفی یہ ہے کہ بنگلہ دیش بننے کے بعد بھی پاکستان کے حکمرانوں نے بنگالیوں سے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کوئی سفارتی کوشش کی اور اس حوالے سے نہ ہی کوئی خارجہ پالیسی تشکیل دی صرف محمود علی مرحوم ایک ایسی قومی شخصیت تھے جنہوں نے تحریک تکمیل پاکستان جاری رکھی اور ان کی قومی خدمات کے صلہ میں انہیں پاکستان کے مستقل خصوصی وفاقی وزیر کا عہدہ بھی حاصل رہا
سقوط ڈھاکہ کے تقریبا” 44 سال بعد دشمنان پاکستان نے تاریخ کے اس سیاہ ترین دن 16 دسمبر 2014ءکو اپنے مذموم مقاصد کے لئے دوبارہ منتخب کیا اور آرمی پبلک سکول پشاور میں ڈیڑ سو سے زائد معصوم طلبہ اور ٹیچرز کےخون کی ہولی کھیلی گئی اور دھشتگردوں نے پاکستان کے زخم کو دوبارہ تازہ کیا 1971ء میں پاک فوج کو ناکام ثابت کرنے کے لیے اور 2014ء میں پاک آرمی کے سکول میں معصوم بچوں کا قتل عام کر کے پاک افواج کی طاقت کو کمزور کے مورال تباہ کرنے کی پری پلان مذموم ترین سازش کی گئ 16 دسمبر پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جب پاکستان دو ٹکڑے ہوا اور پشاور میں ارمی پبلک سکول کے بچوں کو شہید کیا گیا لیکن ہمارے ارباب اختیار اور ناعاقبت اندیش سیاست دانوں نے ابھی تک کوئی سبق حاصل نہیں کیا ملک میں جمہوری اور معاشی استحکام کے لیے اب بھی مل بیٹھ کر کوئی پائیدار لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button